’انگریزی بولنا، انگریزی کپڑے پہننا سافٹ امیج نہیں احساس کمتری ہے‘
’انگریزی بولنا، انگریزی کپڑے پہننا سافٹ امیج نہیں احساس کمتری ہے‘
ہفتہ 26 جون 2021 19:40
وزیراعظم نے نئے فلمسازوں کو مشورہ دیا کہ وہ ناکامی سے نہ گھبرائیں اور اپنی اصل چیز سامنے لے کر آئیں (فوٹو: سکرین گریب)
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر ہمیں اپنے ملک کے سافٹ امیج کو فروغ دینا ہے تو ہمیں پاکستانیت کو فروغ دینا ہو گا۔
نیشنل امیچر شارٹ فلم فیسٹیول کی تقریب سے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ انگریزی بولنا اور انگریزی کپڑے پہننا سافٹ امیج نہیں احساس کمتری ہے، دنیا اس کی عزت کرتی ہے جو پہلے اپنی عزت کرتا ہے۔
’سافٹ امیج کوئی چیز نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جب پاکستانیوں کو انتہاپسند اور بنیاد پرست کہا گیا تو ہمارے اندر یہ دفاعی سوچ پیدا ہوئی کہ ہم پاکستان کا سافٹ امیج پروموٹ کریں۔‘
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں نیا آغاز ہے، مجھے یہ شارٹ فلمز دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ اب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔‘
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کا مثبت تشخص اجاگر کرنے کے لئے کام کرنے والے نوجوانوں فلم سازوں کو وظائف دیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ پاکستانیت کو فروغ دیں کیونکہ انکے پاس فلم انڈسٹری میں بہت مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پاکستان کی فلمی صنعت کے ارتقا کا عمل دیکھا ہے اور میرے خیال میں ہم ابتدا میں ہی غلط سمت میں جانا شروع ہو گئے کیونکہ ہم انڈیا فلمی صنعت سے اتنے متاثر تھے کہ ہم نے ان کی نقالی شروع کردی لہٰذا ایک پاکستانیت یا اپنی سوچ بنانے کے بجائے ہم نے ایک دوسری ثقافت کو اپنا لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 60 اور 70 کی دہائی میں ہندوستانی فلم دیکھنے کابل جاتے تھے اور ریڈیو پر گانے آتے تھے جس کی وجہ یہ سوچ تھی کہ وہ بہتر انڈسٹری ہے اور ہم ان کی نقالی کریں گے تو لوگ ہمیں بھی دیکھیں گے جبکہ ہمارے ٹی وی میں بہت مختلف کلچر آنا شروع ہو گیا تھا اور ہمارا ٹی وی انڈیا میں دیکھا جاتا تھا۔
’عمران خان نے کہا کہ دنیا میں صرف اصل چیز بکتی ہے، نقل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، مہنگی سے مہنگی پینٹننگ لے لیں اور اس کی اچھی سے اچھی کاپی کر لیں لیکن اس کی کوئی قدر نہیں ہے، دنیا صرف اصل چیز کو اہمیت دیتی ہے۔‘
انہوں نے نصرت فتح علی خان کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں نے دنیا بھر میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے تقاریب میں نصرت فتح علی خان کو متعارف کرایا اور بڑے بڑے انگلش پاپ اسٹارز ان کے گن گانے لگے، بعد میں کئی پاکستانی پاپ اسٹارز نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں بھی متعارف کراؤں لیکن ان کی کوئی اہمیت اس لیے نہیں تھی کیونکہ وہ مغربی بینڈز کی کاپی کرتے تھے۔
انہوں نے نئے فلمسازوں کو مشورہ دیا کہ وہ ناکامی سے نہ گھبرائیں اور اپنی اصل چیز لے کر آئیں، یہ میرا زندگی کا تجربہ ہے کہ جو شخص ہارنے سے ڈرتا ہے، وہ کبھی جیت نہیں سکتا، ہمیشہ جیت اسی کی ہوتی ہے جو بڑے بڑے خطرات مول لیتا ہے۔
اس موقع پر انہوں نے سیاحت کی اہمیت پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ آمدن کا سبب سیاحت ہو گی، ابھی تک اس پر توجہ نہیں دی گئی، ہم تاریخی اور مذہبی سیاحت پر بھی توجہ دے رہے ہیں اور پاکستان میں جو منفرد پہاڑی سلسلے ہیں ایسے دنیا میں کہیں نہیں کیونکہ دنیا کی آدھی بلند چوٹیاں ہمارے ملک میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کئی مرتبہ سن چکا ہوں کہ ہمیں پاکستان کے 'سافٹ امیج' کو فروغ دینا چاہیے، یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد شروع ہوا جب ہم نے اس جنگ میں شرکت کی جس کی میں نے ہمیشہ مخالفت کی۔
’اس وقت دنیا نے ہمیں خطرناک اور بنیاد پرستوں کا ملک قرار دیا تو ہم نے دفاعی حیثیت اپناتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان کا سافٹ امیچ ابھرے کا تو دنیا کہے گی کہ یہ بہت زبردست ملک ہے لیکن حقیقتاً سافٹ امیج کوئی چیز نہیں ہوتی، آپ احساس کمتری سے اس چیز پر لگ جاتے ہیں۔‘