لندن ...لندن میں دہشتگردی کے بعد پولیس نے اپنی تحقیقات کا دائرہ برمنگھم تک بڑھا دیا ہے جہاں سے حملہ آور نے کار کرائے پر لی تھی۔ متعدد لوگوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ دریں اثناءدہشتگردی میں مرنے والوں کی تعداد 5ہوچکی ہے ان میں فرانسیسی طلباءاور کوریائی باشندے شامل ہیں۔ ادھر پارلیمنٹ ہاﺅس پر تعینات پولیس اہلکاروں پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں اور ان سے جواب طلب کیا جارہاہے کہ پارلیمنٹ ہاﺅس میں ایک دروازہ کیسے کھلا رہ گیا اور دہشتگرد اس دروازے کے ذریعے وہاں سے کیسے داخل ہوا؟ عینی شاہدین کا کہناہے کہ دہشتگردی کا یہ واقعہ 3منٹ میں مکمل ہوا اور اسکے نتیجے میں ویسٹ منسٹر پل سے پارلیمنٹ ہاﺅس تک تباہی پھیل گئی۔ واقعہ کی جو ڈرامائی وڈیوز جاری ہوئی ہیں اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دہشتگرد کی فائرنگ سے لوگ اپنی جانیں بچانے کیلئے ادھر ادھربھاگ رہے ہیں۔ دہشتگردوں نے اپنی گاڑی فٹ پاتھ پر ہجوم پر چڑھا دی جس سے 3 افراد ہلاک ہوئے اس کے بعد ڈرائیور نے ایک پولیس افسر کو چاقو گھونپ دیا ۔ پولیس کاکہناہے کہ اس نے دہشتگرد کی شناخت کرلی ہے تاہم اسکاانکشاف تحقیقات کے بعد ہوگا۔ ایک اور وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لوگ زخمیوں کی مدد کررہے ہیں۔ ادھر پولیس کاکہناہے کہ کار چڑھانے کے نتیجے میں 40افراد زخمی ہوئے۔ دوسری وڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک خوفزدہ خاتون کی کارفٹ پاتھ سے ٹکرا گئی اور اس میں بیٹھی خاتون دریائے ٹیمز میں جاگری تاہم امدادی کارکنوں نے خاتون کو دریاسے نکال لیا۔ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ خاتون خود دریا میں جاگری یا اس نے چھلانگ لگائی تھی تاہم ابتدائی طورپر یہی سمجھا جارہا ہے کہ اس نے دہشتگردی کی گاڑی سے بچنے کیلئے چھلانگ لگائی۔ زخمیوں میں جنوبی کوریا کی ایک 67سالہ خاتون شامل ہیں جس کے سر پر زخم آئے ہیں۔ دریں اثناء اس واقعہ کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔ فرانس میں برطانوی عوا م سے یکجہتی کیلئے ایفل ٹاور پر لائٹیں بند کردی گئی ہیں۔ وزیراعظم تھریسا مے نے کہاہے کہ برطانیہ دہشتگردوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے گا۔نفرت اور برائی کی طاقتوں کو ہمیں اپنے راستے سے ہٹانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہونگی۔ دہشتگردی کے بعد قوم میں اتحاد کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔ لندن میں ایک ، ایک کرکے زخمی گرتے رہے اور راہگیروںنے انکی مدد کی۔ بعض زخمی سڑکوں پر پڑے تھے جبکہ چند فٹ پاتھوں پر اور یہی راہگیر انہیں اپنے طور پر طبی امداد پہنچانے کی کوشش کررہے تھے۔ ان لوگوں کو ایمرجنسی سروس کو فون کرتے ہوئے دیکھا گیا۔