’آبادی 17 ہزار مگر ووٹرز 34 ہزار‘، قبائلی اضلاع میں دوبارہ مردم شماری کی ہدایت
’آبادی 17 ہزار مگر ووٹرز 34 ہزار‘، قبائلی اضلاع میں دوبارہ مردم شماری کی ہدایت
ہفتہ 9 اکتوبر 2021 12:34
طارق اللہ- پشاور
سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر غازی گلاب جمال نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل غلط مردم شماری کے حوالے سے پشاور کی عدالت میں کیس دائر کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
خیبر پختونخوا میں ضم قبائلی ضلع اورکزئی کے ایک گاؤں میں آبادی 17 ہزار جبکہ ووٹر لسٹ میں 34 ہزار شہریوں کی رجسٹریشن سامنے آنے پر پشاور کی عدالت نے علاقے میں دوبارہ مردم شماری کرانے کے حکامات جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔
سنہ 2017 میں مردم شماری کے بعد سابقہ فاٹا کی آبادی میں کم اضافے پر عوام کی جانب سے مردم شماری پر اعتراضات سامنے آئے جبکہ اس مسئلے کو مختلف فورم پر بھی اٹھا یا گیا۔
اورکزئی ضلع سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر غازی گلاب جمال نے 2018 کے عام انتخابات سے قبل غلط مردم شماری کے حوالے سے پشاور کی عدالت میں کیس دائر کیا تھا جس پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے تمام قبائلی اضلاع میں مردم شماری دوبارہ کرانے سمیت قبائلی عوام کے تحفظات کو دورکرنے کے احکامات جاری کیے۔
کیس کے حوالے سابق ایم این اے غازی گلاب جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ سنہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق اورکزئی کی آبادی دو لاکھ 34 ہزار تھی جبکہ 2017 میں مردم شماری ہوئی تو 20 سال کے دوران ان کے ضلع کی آبادی میں صرف 28 ہزار کا اضافہ بتایا گیا جو سراسر زیادتی ہے۔‘
غازی جمال کے مطابق اورکزئی سمیت دیگر قبائلی اضلاع کی مردم شماری میں عوام کے شکوک و شبہات تھے کیونکہ دہشتگردی کے واقعات کے دوران لاکھوں قبائلی عوام نے اپنے علاقوں کو چھوڑ کر خیبر پختونخوا کے مختلف آئی ڈی پیز کیمپس اور علاقوں میں رہائش پذیر ہوگئے تھے۔’قبائلی علاقوں میں حالات سازگار ہوئے جہاں کئی ایک خاندان واپس اپنے علاقوں کو بھی گئے لیکن بہت سے خاندانوں کی واپسی اب بھی نہیں ہوئی جبکہ مردم شماری بھی ایسی وقت میں ہوئی جب بیشتر قبائلی عوام اپنے علاقوں میں موجود نہیں تھے۔‘
غازی جمال نے بتایا کہ کہ ’اورکزئی کے مامون خیل گاؤں کی آبادی 17 ہزار جبکہ 2018 کی ووٹر لسٹ کے مطابق رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 34 ہزار ہے تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک علاقے میں آبادی کم ہو تو ووٹرز کہا سے آئے؟ اسی طرح کئی اور مسائل بھی سامنے آئے۔‘
مردم شماری میں آبادی کم دکھائی جائے تو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
کسی علاقے کی اگر آبادی کو کم ظاہر کیا جائے تو متعلقہ افراد اس سے کتنے متاثر ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال جب ہم نے پشاور کے سینیئر صحافی رفعت اللہ اورکزئی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’عام طور پر کسی علاقے کے وسائل آبادی کے لحاظ سے طے کے جاتے ہیں جس طرح کہ ہسپتال، سکول، انفراسٹرکچر سمیت ملازمتوں میں کوٹہ و دیگر شعبہ ہائے زندگی، گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ فنڈز کی تقسیم کسی علاقے کی آبادی کو مدنظر رکھ کر ہوتی ہے، بنیادی سہولیات متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کی فنڈنگ بھی کم ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لے نوکریوں اور باقی ریسورسسز میں بھی کمی پیدا ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی مردم شماری پر اپوزیشن پارٹیوں کے تحفظات تھے لیکن پچھلے ایک دو سال سے یہ بات لٹکی ہوئی تھی۔
آبادی کم دکھانے کے حوالے سے رفعت اللہ نے ڈاکٹر غازی گلاب جمال کے بات کی تائید کرتے ہوئے بتایا کہ جب 2017 میں مردم شماری ہو رہی تھی تو قبائلی اضلاع کے زیادہ تر لوگ دہشت گردی اور ملٹری آپریشنز کی وجہ سے اپنے علاقوں سے نقل مکانی کر کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی رجسٹریشن آبائی گاؤں کے بجائے انہی علاقوں میں ہوئی تھی جہاں پر وہ رہائش پزیر تھے۔
پشاور کی مقامی عدالت میں ڈپٹی ڈائریکٹر شماریات، درخواست گزار سابق ایم این اے غازی گلاب جمال، ایڈووکیٹ جہانزیب محسود، ڈپٹی اٹارنی جنرل حبیب قریشی اور اے اے جی سید سکندر حیات شاہ پیش ہوئے تھے۔
کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ادارہ شماریات کو ضم اضلاع کی مردم شماری کے حوالے سے تحفظات کو ختم کرنے اور جلد آز جلد دوبارہ مردم شماری کرنے کے احکامات جاری کیے، جس کے جواب میں ڈپٹی ڈائریکٹر ادارہ شماریات نے بتایا کہ کابینہ کےاجلاس میں 2022 میں دوبارہ مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا جس میں درخواست گزار کے تحفظات دور کر دیے جائیں گے۔