میزائل لانچنگ نئی ٹیکنالوجی کا 'معمول کا تجربہ' ہے: چین
چین انڈیا کے ساتھ لگنے والے بارڈر کے کچھ علاقوں پر ملکیت کا دعویدار ہے۔ (فوٹو: اے ا یف پی)
چین نے کہا ہے کہ ایک نئے خلائی جہاز کی لانچنگ کا مقصد محض یہ دیکھنا تھا کہ آیا خلائی جہاز پھر سے استعمال ہو سکتا ہے کہ نہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان چاؤ لیجین کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لانچنگ میزائل کی نہیں خلائی جہاز کی ہے اور اخراجات نہایت کم کرنے کے حوالے سے ہے، یہ ایک آسان اور سستا راستہ ہو سکتا ہے، جس کی بدولت انسان بڑے سکون سے خلا کی سیر کر سکیں گے۔
واضح رہے کہ چین کے خلائی پروگرام کو اس کی فوج چلاتی ہے اور اس کا ہائپرسونک میزائلز اور دوسری ٹیکنالوجیز کی تیاری سے گہرا تعلق ہے جس سے امریکہ کے ساتھ چین کا طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے۔
چاؤ کا کہنا تھا کہ چین خلا کے انسانیت کے لیے سود مند استعمال میں دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
زاؤ کا یہ بیان اگست میں چین کی جانب سے خلائی سٹیشن پر دوسری بار عملہ بھیجنے کے بعد سامنے آیا ہے۔
چھ ماہ پر مشتمل مشن جب پورا ہوگا تو یہ چین کا خلا میں وقت گزارنے کا سب سے لمبا مشن ہوگا۔
خلائی پروگرام کے ساتھ ساتھ ہائپرسونک میزائل ٹیکنالوجی میں اضافہ اور بعض دوسرے اقدامات سے خدشات سامنے آئے ہیں کیونکہ چین انڈیا کے ساتھ لگنے والے بارڈر کے کچھ علاقوں اور جنوبی اور مشرقی چین کے سمندروں اور جزیروں پر دعوی رکھتا ہے۔ جبکہ امریکہ کو چین کے جوہری پروگرام میں اضافے پر تحفظات ہے۔
امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پیر کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ اس پیش رفت سے ظاہر ہے چین دہائیوں پر محیط جوہری پالیسی سے انحراف کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین امریکہ چین کے ساتھ جوہری صلاحیتوں کے حوالے سے بات کر رہا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی خطرات سے بچانے کے لیے اقدامات کا سلسلہ جاری رکھے گے۔
امریکہ کے اتحادی اور چین کے علاقائی حریفوں کے سربراہ جاپان نے چین کے اقدام کو جارحانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اپنے دفاعی نظام کو بڑھائے گا۔