اسسٹنٹ ڈائریکٹرمحکمہ جنگلی حیات لاہور ریجن تنویر جنجوعہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے صوبہ بھر میں آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں ایئرگن سے پرندوں اور جانوروں کا شکار کرنے والے کو پکڑ کر جرمانہ کیا جا رہا ہے جب کہ اس جرمانے کی کم از کم حد 10 ہزار روپے ہے۔‘
تنویر جنجوعہ کہتے ہیں کہ ’پکڑے جانے والے شکاریوں سے ان کی ایئرگنز ضبط کرلی جاتی ہیں اور جرمانے کی رقم کی ادائیگی کے بعد ان کو وارننگ دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بھلے آپ نے شکار کے لیے قانونی لائسنس حاصل کر رکھا ہے لیکن اگر آپ یہ شکار ایئر گن سے کر رہے ہیں تو یہ غیر قانونی ہے۔ پہلے دو وارننگز اور جرمانہ ہے اس کے بعد آپ کا شکار کا لائسنس بھی ضبط کیا جا سکتا ہے۔‘
پنجاب میں سال کے مخصوص مہینوں خاص طورپر نومبر سے فروری تک محکمہ جنگلی حیات شکار کے شوقین افراد کو باقاعدہ لائسنس جاری کرتا ہے اور ہر سال اس لائسنس کی تجدید کروانا پڑتی ہے۔
محکمے نے صوبائی دارالحکومت لاہور میں سب سے زیادہ ساڑھے سات سو شکار کے لائسنس جاری کر رکھے ہیں۔ جب کہ صوبے میں رجسٹرڈ شکاریوں کی تعداد نو ہزار کے قریب ہے۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں غیر قانونی شکار پر ہر مہینے بھاری جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔
ایئر گن پر پابندی کیوں لگی؟
ایئرگن ایک ایسا ہتھیار ہے جسے رکھنے کے لیے آپ کو حکومت سے اسلحہ لائسنس لینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کو انسانوں کے لیے بے ضرر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر وائلڈ لائف تنویر جنجوعہ کے مطابق ایئرگن انسانوں کے لیے نہ سہی لیکن پرندوں کے لیے خطرناک ترین ہتھیار ہے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’سب سے بڑی خطرناک بات ایئر گن کی یہ ہے کہ اس کی آواز نہیں آتی۔ یعنی جب چھرہ چلایا جاتا ہے تو یہ بے آواز ہوتا ہے جس سے پرندوں کو بڑے پیمانے پر شکار کرنا آسان ہوتا ہے۔ اسی لیے شکار کے لیے اب صرف کارتوس والی 12 بور بندوق کی اجازت ہے۔‘
اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے مطابق ’کارتوس والی بندوق سے ٹھیک ٹھاک قسم کا شور پیدا ہوتا ہے جس سے باقی پرندے اور جانور چکنا ہو کر اس علاقے سے دور چلے جاتے ہیں جب کہ ایئرگن میں ان کو ایسا موقع نہیں ملتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ میں اب تو اتنی جدید ایئر گنز بھی دستیاب ہیں جن کا پریشر اتنا زیادہ ہے کہ اس سے لوگوں نے ہرن بھی شکار کیے ہیں۔‘
’صوبہ بھرمیں شکار کی صورت حال پر غوروخوض کے بعد یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ ایسے بہت سے کیسز سامنے آئے ہیں کہ پنجاب کے صحرائی علاقوں میں بڑے جانور بھی ایئر گن سے شکار کیے گئے ہیں۔‘
محکمہ وائلڈ لائف کے مطابق صوبہ میں سب سے زیادہ غیر قانونی شکار سالٹ ریجن یعنی چکوال، کلرکہار اور وادی سون کے علاقوں میں ہوتا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر سرحدی علاقوں میں اور تیسرے نمبر پر صحرائی علاقوں میں ہوتا ہے اور انہی علاقوں میں سب سے زیادہ ایئر گن ہی استعمال ہوتی رہی ہے۔
تنویر جنجوعہ کا کہنا ہے کہ ’شکار کی اجازت پروٹین یا خوراک کی کمی پوری کرنے کے لیے نہیں دی جاتی بلکہ محکمہ اس کو ایک طرح کا مشغلہ سمجھتا ہے اور قوانین بھی اس طرح سے بنائے گئے ہیں تاکہ شکار کی بہتات کی وجہ سے جنگلی حیات کو نقصان نہ پہنچے۔‘
’اگر آپ دیکھیں تو شکار کی اجازت کے دنوں اور لائسنس کے ساتھ بھی آپ صرف ہفتہ اور اتوار کو مرغابی کا شکار کر سکتے ہیں اور وہ بھی ایک لائسنس ہولڈر زیادہ سے زیادہ چھ مرغابیاں مار سکتا ہے، جبکہ تیتر کا شکار صرف ایک دن اتوار کے روز کرنے کی اجازت ہے اور اس میں بھی آپ ایئر گن استعمال نہیں کر سکتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں لوگوں کے شکار کے شوق کو ایک محدود طریقے سے پورا کروایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد جانوروں اور پرندوں کی تعداد کم کروانا نہیں ہے اور ایئر گن کی پابندی بھی اسی ضمن میں ہے۔‘