Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی اراضی پر قبضہ کے حکمانے کی تجدید

فلسطینی اوراسرائیلی نمائندوں نے وائٹ ہاوس میں امن عمل پر دستخط کئےتھے۔ (فوٹو العربیہ)
ستمبر 1993 میں اسرائیل اور فلسطینی نمائندوں کے وائٹ ہاؤس میں میٹنگ اور اس کے بعد امن معاہدے پر دستخط سے ایک سال قبل اسرائیلی حکام نے بیت اللحم کے جنوب میں فلسطین کی 48 مربع کلومیٹر جگہ ضبط کر لی تھی اور اسے قدرتی ذخیرے میں تبدیل کر دیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے28 سال بعد ایک سیاسی فیصلے میں اس ضبطی کے حکم نامے کی تجدید کی ہے جو ان علاقوں میں سے کچھ میں نجی اراضی رکھنے والے فلسطینیوں کو عمارتوں کے اجازت نامے فراہم کرنے کی کوششوں کو روکنے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

یہ سب کچھ جمہوری ضابطوں کے بہانے سے کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو عرب نیوز)

بیت المقدس میں اپلائیڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جیڈ اسحاق نےاس سلسلے میں عرب نیوز کو بتایا ہے کہ ان علاقوں کے ایک بڑے حصے کو ایریا سی کے طور پر نشان زدہ کیا گیا ہے جس کا مطلب اسرائیلیوں کو اس بات پر مکمل اختیار ہے کہ ان جگہوں پر کون تعمیرات کر سکتا ہے اور کون نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 18نومبر1992 کے ملٹری آرڈر 2 کے تحت بیت اللحم کے مشرقی اور جنوبی علاقوں کا بڑا حصہ سیر، عرب الراشدہ اور شیوخ  کے علاقوں کے آس پاس کا حصہ لے لیا گیا ہے۔
اسحاق نے بتایا کہ فلسطینیوں کو ایریا اے کے طور پر درج ہونے کے باوجود 29.7 مربع کلومیٹر اراضی پر تعمیر کرنے کی اجازت نہیں تھی یعنی مقامی فلسطینی بلدیات کو ان کے بارے میں انتظامی فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس زمین کا 10.875مربع کلومیٹر قدرتی ذخائر میں تبدیل ہوچکا ہے جس سے ان علاقوں میں فلسطینیوں کے حقوق کو مسدود کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے  قدرتی ذخائر کی اصطلاح استعمال کی ہےتاکہ ان علاقوں میں فلسطینیوں کو تعمیرات سے روکا جاسکے۔

1967 کے بعد اسرائیل نے کئی طرح کے فوجی احکامات صادر کیے ہیں۔ (فوٹوعرب نیوز)

کئی برسوں سےعالمی برادری خصوصاً امریکہ اسرائیل سے کہہ رہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو ان علاقوں میں تعمیرات کی اجازت دے۔
بیت اللحم شہر کے سابق میئر ویرا بابون نے عرب نیوز کو بتایا ہےکہ اس اقدام کا مقصد بیت اللحم کی گورنری کو ہیبرون گورنریٹ سے الگ کرنا تھا۔
اس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ فلسطینی آبادی والےعلاقوں کو الگ کیا جائے نیز ان علاقوں میں کھیتی باڑی اور چراہ گاہیں بند کر دی جائیں جس سے فلسطینی کسانوں کی اپنی زمین تک پہنچنے تک مشکل ہو جبکہ یہودی آباد کاروں کو فلسطینی سرزمین پر گھومنے پھرنے کی آزادی ہو۔
اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزارت دفاع نے ایریا سی میں تعمیر کی اجازت دینے کے لیے صرف چند ہی تعمیراتی اجازت نامے جاری کیے ہیں۔
ذیلی کمیٹی کے اجلاسوں میں صرف 26 ہاؤسنگ یونٹس کے منصوبوں کو آگے بڑھایا گیا ہے اور ان میں سے صرف چھ یونٹ جو ایک ہی عمارت میں واقع ہیں بلڈنگ پرمٹ حاصل کر سکے ہیں۔

امریکہ کئی برسوں سے کہہ رہا ہے کہ ان علاقوں میں تعمیرات کی اجازت دی جائے۔ (فوٹو العربیہ)

انہوں نے مزید بتایا کہ1967 کے بعد سے فلسطین کی ترقی کو کم کرنے کے لیے اسرائیل نے کئی طرح کے فوجی احکامات صادر کیے ہیں۔
دسیوں قوانین منظور کیے گئے ہیں جو انہیں فلسطینی زمین چھیننے یا فلسطینیوں کو اس کے استعمال سے روکنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ ایسا لگتا ہے کہ یہ سب کچھ جمہوری ضابطوں کے بہانے کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ 1969 کے فوجی حکم نامے کا استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی شہری انتظامیہ مقبوضہ مغربی کنارے کی کسی بھی زمین کو قدرتی ذخائر کے لیے مخصوص کردہ قطعہ زمین قرار دے سکتی ہے جہاں تعمیرات کا لائسنس لینا انتہائی مشکل ہے۔
جنوری 2020 میں اس وقت کے وزیر دفاع نفتالی بینیٹ، جو اسرائیل کے موجودہ  وزیراعظم ہیں، انہوں نے112.5 مربع کلومیٹر کےعلاقے میں سات ذخائر کے اعلان کی منظوری دی تھی جس کا مقصد موجودہ 12 قدرتی ذخائر کےعلاوہ کسی بھی فلسطینی عمارت کی تعمیر کو روکنا ہے۔
 

شیئر: