سعودی پیکج کے بعد ڈالر ریٹ میں کمی، کیا معیشت سنبھل جائے گی؟
سعودی پیکج کے بعد ڈالر ریٹ میں کمی، کیا معیشت سنبھل جائے گی؟
جمعرات 28 اکتوبر 2021 15:01
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
منگل کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کے لیے 4 ارب 20 کروڑ ڈالر کے پیکج کے اعلان کے فوری بعد معیشت پر مثبت اثرات آنا شروع ہوگئے ہیں۔
ڈالر کے مقابلے میں ناصرف روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا ہے بلکہ سٹاک مارکیٹ میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
ماہرین کے مطابق سعودی پیکج سے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدت کے لیے سہارا مل گیا ہے جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ پیکج سے ناصرف مجموعی معیشت میں بہتری آئے گی بلکہ مہنگائی کے ستائے عوام کو بھی کسی حد تک ریلیف دیا جائے گا۔
سعودی پیکج کے اعلان کے فوری بعد بدھ کے روز کرنسی مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں دو روپے سے زائد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔
جمعرات کو بھی یہ رجحان جاری رہا اور روپے کی قدر میں دوپہر تک مزید دو روپے کا اضافہ ہوا اور انٹربینک میں ایک ڈالر کی قیمت 171 روپے تک آگئی۔
یاد رہے کہ منگل کو پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی اور ایک ڈالر کی قیمت 175 روپے کی حد عبور کر کے 175.27 پر بند ہوئی تھی۔
اسی طرح سٹاک مارکیٹ میں بھی بدھ کو ہی بہتری دیکھی گئی اور پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 564 پوائنٹس کا اضافہ ہوگیا جو کہ مجموعی طور پر گذشتہ روز کے مقابلے میں ایک اعشاریہ 25 فیصد کا اضافہ تھا۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے بعد منگل کو سعودی ترقیاتی فنڈ نےپاکستان کے لیے4 ارب 20 کروڑ ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا تھا۔
سعودی ترقیاتی فنڈ کے مطابق ’شاہی ہدایت پر فنڈ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں 3 ارب ڈالر جمع کرائے جائیں گے تاکہ غیر ملکی کرنسی کے محفوظ اثاثوں اور کورونا وبا سے نمٹنے کے سلسلے میں پاکستانی حکومت درپیش مسائل کا سامنا کرسکے۔‘
شاہی ہدایت کے مطابق پاکستان کو تیل کے کاروبار کی مد میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کا فنڈ بھی ایک سال کے دوران فراہم کیا جائے گا۔‘
وزیراعظم عمران خان نے سعودی امداد پر شکریے کا ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’مرکزی بنک میں 3 ارب ڈالر کے ڈیپازٹ اور ریفائنڈ یپٹرولیم مصنوعات کے لیے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی فنانسنگ کےذریعے پاکستان کی مدد پر میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا مشکورہوں۔
’سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں ،جن میں دنیا کو اشیائے ضروریہ کے بڑھتے ہوئے نرخوں جیسا حالیہ چیلنج بھی شامل ہے، میں پاکستان کی مدد کی ہے۔‘
کیا ڈالر مزید نیچے آئے گا؟
ڈالر کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کرنسی ڈیلرز کے نمائندہ اور چیئرمین ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے بتایا کہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں کمی سعودی عرب کے ڈیپازٹس اور موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کے اعلان کا مثبت اثر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدھ تک کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں کل چار روپے تک کی کمی آچکی ہے جو کہ بہت بڑی پیش رفت ہے۔
ملک بوستان کے مطابق ’اگر آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبر مل گئی تو ایک ڈالر کی قیمت 165 روپے تک بھی آسکتی ہے۔‘
’آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل خطرے سے دوچار ہونے کی خبروں سے گذشتہ چند دنوں میں ڈالر کی قیمت اچانک 170 سے 175 روپے تک چلی گئی تھی اور کچھ لوگ یہ افواہیں اڑانا شروع ہو گئے تھے کہ ڈالر 200 روپے تک چلا جائے گا تاہم اب یہ پیشین گوئیاں خاک میں مل گئی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مئی 2021 میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 152.28 روپے تھی اور پانچ ماہ میں اس کی قیمت میں 23 روپے کا اضافہ ہوا تھا۔
ملک بوستان کا کہنا تھا کہ سعودی پیکج سے روپے کی قیمت کو سہارا ملا ہے اس پر پوری قوم سعودی حکومت کی شکر گزار ہے۔
ان سے پوچھا گیا کہ اس وقت اوپن مارکیٹ اور انٹربینک ڈالر کی قیمت میں کتنا فرق ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اب کوئی فرق نہیں رہا کیونکہ ڈالر کی خریدوفروخت کے حوالے سے نئی حکومتی ہدایات کے بعد زیادہ تر ٹریڈنگ بینک سے ہی ہوتی ہے۔
سعودی پیکج سے مہنگائی بھی کم ہوگی
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم نے کہا کہ سعودی پیکج سے پہلی بار سٹیٹ بینک کے اپنے ڈالر کے ذخائر 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں جس سے مارکیٹ میں بہت مثبت پیغام گیا ہے اور ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی پیکج وقت کی ضرورت تھی کیونکہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں قیمتیں بہت بڑھ رہی تھیں اور اس کا اثر پاکستان پر بھی ہو رہا تھا۔
’ہمارا خیال ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا یہ رجحان ہمیشہ نہیں رہے گا بلکہ سردیوں کے چند ماہ بعد صورت حال معمول پر آجائے گی اور کورونا کی وجہ سے متاثر ہونے والی سپلائی لائن بھی بحال ہو جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم ان چند ماہ کے لیے ہمیں سعودی پیکج سے کافی مدد مل جائے گی اور اگر کوئی اور انٹرنیشنل دھچکہ بھی آیا تو برداشت کر لیں گے ۔‘
’حکومت متاثرہ طبقے کو مہنگائی کے حوالے سے ریلیف دینے پر بھی غور کرے گی اور ضروری اشیا تک غریب طبقے کی رسائی یقینی بنائی جائے گی۔‘
تاہم پیٹرول کی قیمتوں پر فرق پڑنے کے سوال پر ان کا جواب نفی میں تھا۔ مزمل اسلم کے مطابق پیٹرول کی قیمتیں عالمی سطح پر بڑھتی ہیں تو پاکستان کو بھی مزید بڑھانا پڑیں گی اس میں حکومت کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کو ممکنہ حد تک کم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول تو لینڈ کروزر والے بھی ڈلواتے ہیں، ہم پیٹرول کے بجائے آٹے پر سبسڈی دینے کو ترجیح دیں گے تاکہ جو مہنگائی کا سب سے زیادہ شکار طبقہ ہے اس کو ریلیف ملے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے بین الاقوامی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی آئی تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔
یاد رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران یہ دوسری بار ہے کہ کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ڈالر رکھے گئے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدا میں جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی وجہ سے پاکستان ادائیگوں کے عدم توازن کا شکار ہوا تو سعودی عرب نے دو ارب ڈالر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں رکھے تھے۔
معیشت کی مستقل بہتری کے اقدامات کیوں زیادہ ضروری ہیں؟
معاشی امور پر دسترس رکھنے والے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ سعودی پیکج سے یقیناً حکومت کو عارضی سہارا ملا ہے اور مختصر دورانیے میں یہ معیشت کے لیے بہتر خبر ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں معیشت کا ڈھانچہ درست کیا جائے اور برآمدات کو بڑھایا جائے۔
ملک میں ایسے ذریعے سے زرمبادلہ آنا ضروری ہے جس پر سود نہ دینا پڑے جیسا کہ بیرون ملک سے پاکستانیوں کی ترسیلات سے آنے والی رقم یا پھر برآمدات کی مد میں حاصل ہونے والا زرمبادلہ۔
ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دس سال سے پاکستان کی برآمدات 20 سے 30 ارب ڈالر تک ہی ہیں جبکہ خطے کے دیگر ممالک جیسا کہ بنگلہ دیش یا ویت نام نے دیکھتے ہی دیکھتے اپنی برآمدات کو پاکستان سے بہت زیادہ کرلیا ہے۔
مہتاب حیدر کے مطابق پاکستان کی حکومت کو ملک میں انڈسٹری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ ہماری برآمدات بھی خطے کے ممالک کی طرح تیزی سے بڑھیں۔ اس کے علاوہ مزید تربیت یافتہ افرادی قوت کو بیرون ملک بھیج کر بھی زرمبادلہ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔