بیرونی کرنسی کے لین دین میں شفافیت سے روپے کی قدر بڑھے گی؟
بیرونی کرنسی کے لین دین میں شفافیت سے روپے کی قدر بڑھے گی؟
جمعہ 8 اکتوبر 2021 5:42
طارق اللہ- پشاور
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری نوٹی فیکیشن کے مطابق نئی شرائط کو 22 اکتوبر 2021 سے لاگو کیا جائے گا (فائل فوٹو: روئٹرز)
ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بیرونی کرنسی کے لین دین میں شفافیت لانے اور غیر ملکی کرنسی کی بیرون ملک سمگلنگ کو روکنے کے لیے کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کو نئے احکامات جاری کیے ہیں۔
ان احکامات میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان سفر کرنے والے کو صرف ایک ہزار ڈالر لے جانے کی اجازت ہوگی جبکہ زیادہ سے زیادہ ان پیسوں کی سالانہ حد چھ ہزار امریکی ڈالر ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے پانچ ہزار ڈالر لے جانے کی حد مقرر تھی جسے کم کر دیا گیا ہے۔ سٹیٹ بینک کے جاری کردہ نوٹی فیکیشن میں یہ بھی ہے کہ 500 اور اس سے زائد کے مساوی تمام بیرونی کرنسی کی فروخت کی ٹرانزیکشنز اور بیرون ملک بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے لیے ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بائیومیٹرک تصدیق کرنا لازمی ہوگا۔
اسی طرح ایکسچینج کمپنیاں 10 ہزار امریکی ڈالر اور اس سے زائد کے مساوی نقد بیرونی کرنسی کی فروخت اور بیرونی ملک ترسیلات زر بیجھنے کا عمل صرف چیک بک کے ذریعے وصول ہونے والی رقوم کے عوض یا بینکاری چینلز کے ذریعے کرسکیں گی۔
سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری نوٹی فیکیشن کے مطابق ان شرائط کو 22 اکتوبر 2021 سے لاگو کیا جائے گا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے نئے قوانین لانے کے بعد کیا واقعی لین دین میں شفافیت ممکن ہو پائے گی؟
اسی سلسلے میں اردو نیوز کو پشاور میں پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کمیٹی کے چیئرمین اور چیمبر آف کامرس کےسابق نائب صدر شاہد حسین نے بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کے غیر ملکی کرنسی کے حوالے سے نئے قواعد و ضوابط سے کرنسی ایکسچینج کمپنیوں کی جانب سے بیرونی کرنسی کی فروخت کی ڈاکومینٹیشن بہتر ہوگی اور غیرملکی کرنسی کی سمگلنگ کو روکنے میں معاون ثابت ہوں گے۔‘
شاہد حسین نے بتایا کہ ’پاکستان اور افغانستان کا روٹ سینٹرل ایشیا میں تجارت کے تیسرے نمبر پر تھا لیکن جب سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں خرابی آئی ہے تو اس وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت پر بھی اثر پڑا ہے۔‘
ان کے مطابق ’پاکستان سے افغانستان کو بہت کم اشیا کی تجارت ہوتی ہے لیکن افغانستان سے پاکستان اشیا لانے کا عمل قدرے بہتر ہے۔ اس تجارت کے لیے پاک افغان طورخم سرحد نہ صرف افغانستان بلکہ سینٹرل ایشیا کے دیگر ممالک میں تجارت کے لیے مرکزی گیٹ وے کی حہثیت رکھتی ہے۔‘
انہوں نے اس صورت حال کو بہتر بنانے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’جب تک افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر تجارت کے حوالے سے لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاتا تب تک تجارت بھی ٹھیک نیں ہوسکتی۔‘
’اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان سمیت دیگر سینٹرل ایشیا کے ممالک اس حوالے افغانستان میں موجودہ حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر تجارت کے لیے راہ ہموار کریں۔‘
شاہد حسین نے سٹیٹ بینک کی غیر ملکی کرنسی کے حوالے سے نئے قوانین کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس سے پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 178 روپے تک پہنچ گئی تھی لیکن نئی پالیسی لانے کے بعد تین دنوں کے اندر اندر ڈالر 176 تک آگیا ہے لیکن اس کے نتائج دور رس نہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر ملک میں روپے کی قیمت کو مستحکم کرنا ہے تو حکومت کو چاہیے کہ افغانستان کے لیے درآمدات اور برآمدت کے حجم کو بڑھایا جائے۔‘
’افغانستان کے ساتھ بارڈرز پر پہلے سے آمدورفت بہت کم ہے، اگر ایسے میں کوئی مقررہ حد کے اندر ڈالر ساتھ لے جائے تو روپے کی قیمت کے استحکام میں کوئی خاطر خوآہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک کی آپس میں تجارت کو فروغ ملے۔‘
اس حوالے سے ماہر معیشت ڈاکٹر عبدالجلیل نے اردو نیوز نے بتایا کہ ’سٹیٹ بینک کی یہ پالیسی بلکل غلط ہے۔‘
’اکثر حکومتیں شارٹ ٹرم میں کوئی ایسی پالیسی بناتی ہیں جو بعد میں ان کے لیے کافی مسائل پیدا کرتی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’افغان ٹرانزیکشن کے پیچھے حکومت اور سٹیٹ بینک اپنی غلطیاں چھپارہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’انہیں صاف معلوم ہونا چاہیے کہ کل کتنی ٹرانزیکشنز ہوتی ہیں اور عوام کو بھی اس سے باخبر رکھنا چاہیے، لیکن ٹرانزیکشن اتنی بھی زیادہ نہیں ہو رہی جتنا یہ سمجھ رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر عبدالجلیل نے بتایا کہ ’عوام کو تو پتا نہیں اور اسی وجہ سے مصنوعی خریدوفروخت میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہورہے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔‘
پشاور میں 15 سال سے کرنسی کے کاروبار سے وابستہ ایک تاجر نے آئی ایم ایف کو ملک میں امریکی ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کی بڑا وجہ قرار دہتے ہوئے کہا کہ ’ڈالر کی سمگلنگ اتنی نہیں ہوتی جس سے روپے کی قیمت میں کمی ہو سکے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف جب پاکستان کو قرضہ فراہم کرتا ہے تو اس کے بدلے بعض شرائط بھی رکھتا ہے مثلاً ڈالر کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قیمت گرانے کے ساتھ ساتھ پیٹرول، بجلی، گیس و دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ شامل ہوتا ہے جس کے بعد آئی ایم ایف پاکستان کو قرض کی ادائیگی کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’قرض کی واپسی کے لیے بھی آئی ایم ایف پہلے سے راہیں تلاش کرتا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کے ساتھ ساتھ روپے کی قیمت بھی گر جاتی ہے۔‘
’سٹیٹ بینک کی نئی پالیسی سے ڈالر کی قیمت میں خاص کمی نہیں آسکتی کیونکہ موجودہ وقت میں پاکستان سے افغانستان آمدورفت کافی کم ہے جس سے ڈالر کی قیمت اس حد تک کم نہیں ہوسکتی بلکہ یہ پہلے سے طے شدہ معاہدے کے تحت ہوتی ہے۔ ‘