خبر ہے کہ معاہدہ تحریری ہے مگر ان سطور کے تحریر ہونے تک حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کالعدم تحریک لبیک کے ساتھ حکومت کا ایک اور معاہدہ ہو گیا ہے۔ سپیکر اسد قیصر کے ہمراہ شاہ محمود قریشی اور علی محمد خان نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ کالعدم جماعت سے معاملات طے پا گئے ہیں۔
اس دفعہ معاہدے کی شرائط خفیہ رکھی گئی تھیں مگر غیر مصدقہ تفصیلات سامنے آئی ہیں جس کے مطابق کالعدم تنظیم کے خلاف مقدمات واپس لینے، سیاست میں حصہ لینے کی اجازت اور کارکنوں کی رہائی شامل ہے۔
یہ بھی خبر ہے کہ معاہدہ تحریری ہے مگر ان سطور کے تحریر ہونے تک حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ اس معاہدے کے بعد حکومت نے سُکھ کا سانس تو لیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ معاہدہ کئی سوال چھوڑ کر جا رہا ہے۔
ایک سوال تو حکومت کی پالیسی کے بارے میں ہے۔ مذکورہ تحریک اس سے پیشتر کالعدم قرار دی گئی تھی، اس کے سربراہ کو حراست میں لیا گیا تھا اور کارکنان پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ کیا آئندہ کے لیے بھی قانون کا تشدد کرنے والے عناصر کے بارے میں یہی ارادہ ہو گا یا پھر اب پرانے سارے اقدامات بھلا دیے گئے ہیں۔
یہ بھی خبر ہے کہ تحریک دوبارہ اجتجاج یا لانگ مارچ نہیں کرے گی تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگلے کچھ عرصے میں کسی اور ایشو پر اس کے کارکن قانون کو ہاتھ میں نہیں لیں گے؟ اور اگر ایسا ہوا تو پھر اس پر کیا پالیسی ہو گی۔ کیا حکومت اور ریاست کے پاس کوئی طویل المدتی پلان ہے؟ اگر ہے بھی تو کم از کم سامنے نظر نہیں آ رہا۔
دوسرا اہم سوال حکومت کی حکمت عملی کے بارے میں ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار جن کے ماتحت پولیس کے آدھ درجن بھر جوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے، کی طرف سے معاملے کو فہم و فراست سے حل ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ اگر ان کی فہم و فراست بہتر ہوتی تو معاملات اس نہج پر پہنچتے ہی کیوں اور اور کیا یہ پنجاب حکومت کی ناکامی نہیں کہ ایک طرف وہ باوجود کوشش کے ہجوم کو روک نہیں سکے جبکہ ہفتوں تک ذرائع آمدروفت بند رکھے گئے۔
پھر مذاکرات بھی وفاقی حکومت کی سطح پر ہوئے۔ وفاقی حکومت کی اپنی حکمت عملی میں کئی نشیب و فراز آئے۔ ایک طرف پہلے سخت موقف اپنایا گیا۔ ایسے اشارے دیے گئے کہ اس دفعہ حکومت اور ریاست نے ٹھان لی ہے کہ پرُ تشدد عناصر کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔ کچھ وزرا ٹی ایل پی کے خلاف سخت بیانات دے رہے تھے اور ساتھ ہی ان کے ساتھی وزرا معذرت خواہانہ بیانیہ اپنا رہے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان اس سے پیشتر بھی کالعدم تحریک پر واضح ایکشن کے اشارے دے چکے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی فوراً دوبارہ مذاکرات کر کے معاہدے کی طرف بھی چل پڑے۔ ان حالات میں حکومت کی سنجیدگی اور اثر پر کئی سوالیہ نشان اٹھ جاتے ہیں۔
معاشرتی اور سیاسی انتشار ملک کے لیے یقیناً نقصان دہ ہے۔ کوئی شہری نہیں چاہے گا کہ ملک میں اضطراب کی سی کیفیت ہو اور سڑکوں پر خون خرابا ہوتا نظر آئے۔
سوال مگر قانون کی عملداری کا ہے۔ جب حکومت نے ایک جماعت کو کالعدم قرار دیا تو وہ ایک قانون یعنی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت تھا۔ اس کا یہ بھی مطلب تھا اب حکومت اس جماعت کو قانونی طریقے سے ڈیل کرے گی۔ اب اگر ایک کالعدم جماعت کے ساتھ حکومت معاملات اور وہ بھی خفیہ طریقے سے طے کرے گی تو باقی کالعدم جماعتوں اور عام عوام کے لیے کیا پیغام جائے گا؟
وہ پیغام یہی ہو گا کہ حکومت کو کسی بھی ایشو پر لچک دکھانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، اگر سڑکوں پر مناسب قوت دکھائی جائے۔
اس حکومت کے ساتھ یوٹرن کا لفظ بطور طنز و مزاح استعمال ہوتا ہے مگر اس سارے مسئلے میں اگر حکومتی اقدامات کو یو ٹرن نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ اس میں اصل بے یقینی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ایک دن ایک پالیسی ہو اور اگلے دن دوسری۔
اگر کسی جماعت کو کالعدم کرنا ہے تو وہ بھی قانون کے مطابق ہونا چاہیے اور اس کی معقول وجوہات ہونی چاہیے۔ اور جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ اس کے سٹیٹس میں تبدیلی ہوگی تو اس کی بھی کوئی وجہ ہونا چاہیے اور اس دوران ہوئے نقصان کی بھی ذمہ داری ہونی چاہیے۔
یہ معاہدہ کتنی دیر چلے گا اس کا فیصلہ تو جلدی ہو جائے گا مگر جو تفریق اس دوران معاشرے اور سیاست میں پیدا ہو چکی ہے اس کو بھرنے میں بہت وقت لگے گا۔