پاکستان میں ڈینگی وائرس نے ایک مرتبہ پھر وبائی شکل اختیار کر لی ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک ہی روز میں وائرس سے پانچ ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں، جبکہ اس وقت بخار کو کم کرنے والی دوا پیناڈول بھی مارکیٹ میں نایاب ہو چکی ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ بھر میں ایک ہی روز میں 550 ڈینگی کے مریض سامنے آئے ہیں جو اس وبا کے آغاز سے لے کر اب تک ایک ہی روز میں متاثر ہونے والے افراد کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔
صوبائی دارالحکومت سمیت تمام ہسپتالوں میں مختص ڈینگی وارڈز اس وقت مریضوں سے بھر چکے ہیں۔ وزیر صحت یاسمین راشد نے سرکاری مشینری کو مزید متحرک کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
دوائیوں کی قیمتیں کم کیوں نہ ہو سکیں؟Node ID: 415321
-
ڈینگی بخار کے سر اٹھاتے ہی لاہور میں پیناڈول کی گولی نایابNode ID: 608166
-
ڈینگی بخار میں استعمال ہونے والی کِٹ بلیک میں فروخت کیسے؟Node ID: 611026
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں ڈینگی وبا کو مکمل کنٹرول میں لایا گیا تھا تو اس بار ایسے کیا حالات پیدا ہوئے کہ وائرس پر قابو نہیں پایا جا سکا؟
سابق وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت نے ساون کے موسم میں وہ اقدامات نہیں کیے جو اس وبا کے شروع ہونے سے پہلے کرنے چاہئیں تھے۔
’اس بات میں کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ یہ حکومت ہر کام میں کیوں ناکام ہو رہی ہے۔ جب 2011 میں پہلی بار ڈینگی وارڈ بنایا گیا تو ساتھ ہی بڑے پیمانے پر اس کی مستقل روک تھام کے اقدامات کیے گئے تھے اور ایس او پیز کو قانونی دستاویز کی شکل دی گئی تھی۔ کسی اندھے کو بھی وہ ایس او پیز دے دو تو وہ اس وائرس کو بروقت روک سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے نہ تو سپرے کیا ہے اور نہ مچھر کے انڈوں کو تلف کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہیں۔
’ہمارے لیے اس وقت سب سے بڑا مشکل کام یہ تھا کہ اس وائرس کے بارے میں لٹریچر بالکل موجود نہیں تھا۔ ہر چیز صفر سے شروع ہوئی اور ایک سال میں اس موذی وائرس کا خاتمہ کیا گیا۔ اس حکومت کے ذمے تو کچھ تھا ہی نہیں۔ صرف ایس او پیز پر عملدرآمد کرنا تھا۔‘
