پاکستان میں آج کل ڈینگی وائرس کے پھیلاؤ میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سیکنڑوں کی تعداد میں مریض روزانہ کی بنیاد پر سامنے آ رہے ہیں۔
دوسرے صوبوں کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ایسے مریضوں میں پلیٹ لیٹس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے استعمال ہونے والی کٹس ایک طرح سے نایاب ہو گئی ہیں۔
مزید پڑھیں
-
اسلام آباد اور راولپنڈی میں ڈینگی کے وار تیزNode ID: 434366
-
مچھر اور کیڑوں کو اب پودے لگا کر بھگائیںNode ID: 488196
-
ڈینگی بخار کے سر اٹھاتے ہی لاہور میں پیناڈول کی گولی نایابNode ID: 608166
صدیم انور کا تعلق لاہور سے ہے اور ان کے والد گزشتہ ہفتے ڈینگی کا شکار ہو گئے۔ جب ان کے خون میں پلیٹ لیٹس کی تعداد 20 ہزار سے نیچے آ گئی تو انہیں ہسپتال داخل کروانا پڑا۔
تاہم ان کے لیے مشکل صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب سرکاری ہسپتال نے انہیں پلیٹ لیٹس لگانے کے لیے استعمال ہونے والی کٹ خود سے خرید کر لانے کا کہا۔
صدیم بتاتے ہیں کہ ’میرے والد صاحب کے پلیٹ لیٹس بڑی تیزی سے نیچے آ رہے تھے اور انہیں شدید بخار تھا۔ ہم انہیں سروسز ہسپتال لے کر گئے۔ ڈاکٹرز نے کہا کہ ان میں پلیٹ لیٹس انجیکٹ کیے جانے ضروری ہیں تاہم ہسپتال کے پاس کٹس نہیں ہیں، ان کا بندوبست باہر سے کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ یہ وہ وقت تھا جب انہوں نے باہر موجود میڈیکل فارمسیز سے رابطہ کیا تو کِٹ دستیاب ہی نہیں تھی۔ ’پھر مجھے ہسپتال سے ہی ایک اہلکار نے نمبر دیا کہ اس نمبر پر رابطہ کریں آپ کو کٹ مل جائے گی۔‘
صدیم انور نے بتایا کہ ’میں نے دیے گئے نمبر پر رابطہ کیا تو فون سننے والے شخص نے کہا کہ کٹ دستیاب ہے اور اس کی قیمت 30 ہزار روپے ہے۔ مجھے یہ بات سن کر یقین نہیں آیا کہ یہ تو بہت مہنگی ہے۔ تو آگے سے فون اٹینڈ کرنے والے شخص نے بتایا کہ شکر کریں کہ آپ کا رابطہ مجھ سے ہو گیا اور آپ کو کٹ مل رہی ہے۔ مارکیٹ سے یہ آپ کو نہیں ملے گی۔‘
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2021/000_9pu89t.jpg)
صدیم نے بتایا کہ ’میں نے اس طریقے سے کٹ لینے سے انکار کیا اور ایک دفعہ پھر دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ تقریباً ہر طرح کے میڈیکل سپلائرز اور میڈیکل سٹورز چھان مارے لیکن کٹ کہیں دستیاب نہیں تھی۔ تین گھنٹے کے بعد دوبارہ اسی شخص سے رابطہ کیا تو اس نے کہا کہ اب وہ اپنے گھر بھٹہ چوک آ گیا ہے۔‘
’اب وہاں سے آ کر لینی پڑے گی۔ رات کے 10 بجے کا وقت تھا اور میں موٹرسائیکل پر بھٹہ چوک جو کہ لاہور ایئرپورٹ کے قریب ہے، وہاں گیا اور 30 ہزار روپے ادا کر کے وہ کِٹ خریدی۔ اس کے بعد ایک نجی ہسپتال میں ڈونرز کو بلایا اور پلیٹ لیٹس نکلوا کر والد صاحب کو لگوائے۔ اس کے بعد ان کو ایک اور دفعہ پلیٹ لیٹس لگانے پڑے، تاہم تیسرے دن ان کی صحت بحال ہونا شروع ہوئی اور پھر ہم انہیں گھر لے آئے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ انہیں اس طرح کی صورت حال سے پہلے کبھی دوچار نہیں ہونا پڑا۔ ’سال 2012 میں جب پاکستان میں پہلی دفعہ ڈینگی نے اٹیک کیا تو مجھے بھی اس صورت حال سے گزرنا پڑا تھا لیکن اس وقت اس کٹ کی قیمت نو ہزار روپے تھی اور سرکاری ہسپتالوں کے ڈینگی وارڈز میں یہ مریضوں کو مفت فراہم کی جاتی تھی۔‘
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2021/000_9nw747.jpg)
طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی وائرس کا باقاعدہ علاج دستیاب نہیں لہٰذا اس وائرس کے حملے کے بعد سب سے اہم بات مریض کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کرنا ہی ہے۔
لاہور میں میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر سلمان شیروانی کہتے ہیں کہ ’ڈینگی کے مریضوں کا بخار کم کرنے کے لیے انہیں صرف پیراسٹامول دی جاتی ہے اور ان کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے ان کی خوراک پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ تاہم ایسے مریض جن کے پلیٹ لیٹس 50 ہزار سے نیچے آنا شروع ہوتے ہیں تو اس وقت بات خطرے کی طرف چلی جاتی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اگر پلیٹ لیٹس اس کے بعد بھی مسلسل نیچے آ رہے ہوں تو پھر ڈاکٹر فیصلہ کرتے ہیں کہ اب مریض میں پلیٹ لیٹس انجیکٹ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی بوتل سے مریض بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اور بعض اوقات صورت حال دو یا تین بوتل تک بھی پہنچ جاتی ہے۔‘
اردو نیوز نے جب اس حوالے سے ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ پنجاب سے رابطہ کیا اور مارکیٹ میں بلیک میں فروخت ہونے والی ڈینگی کٹ (ڈیکسٹران فارٹی) سے متعلق سوال پوچھا تو ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس لغاری نے بتایا ’یہ ایک عجیب بات ہے کہ ڈیکسٹران فارٹی ایسے بلیک میں فروخت ہوئی، ہم اس کی انکوائری کریں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/October/36496/2021/000_1ko9sq.jpg)