کسی کتاب کا وہ حصہ یا جُز بھی ’باب‘ کہلاتا ہے، جو تقسیم مضامین یا ترتیب واقعات کے لحاظ سے علیحٰدہ ہو۔ (پکسا بے)
ملتا تھا فصل کا نہ ٹھکانا نہ باب کا
شیرازہ کُھل گیا تھا ستم کی کتاب کا
شعر کی خوبی سادہ الفاظ میں بات کا مکمل ابلاغ ہے جب کہ شعر گلدستہِ معنی کو سو ڈھنگ سے باندھنے والے شاعر ’میر انیس‘ کا ہے۔ شعر بالا میں ہمیں جن الفاظ کے معنی سے بحث مطلوب ہے وہ ’فصل، باب، شیرازہ اور کتاب‘ ہیں۔
’فصل‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی دو چیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اس طرح علیحدہ کر دینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ قائم ہوجائے۔ فطری طور پر عربی میں ’فصل‘ اور اس سے مشتق الفاظ کثرت اور کثرتِ استعمال میں فارسی و اردو سے زیادہ ہیں۔
اسی ’فصل‘ سے ایک لفظ ’اَلفَصِیلُ‘ ہے، جو اونٹ کے اُس بچے کو کہتے ہیں جس کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو۔ اس کے علاوہ ناک کا بانسا یعنی ناک کی کھڑی ہڈی کو ’فاصِلُ الْاَنْف‘ کہتے ہیں، کیوں کہ یہ ہڈی دونوں نتھنوں کے درمیان واقع ہوتی ہے۔
ایک ترکیب ’فَوَاصِلُ القِلَادَۃِ‘ ہے، جو اُن بڑے موتیوں کو کہا جاتا ہے جو ہار کے اندر چھوٹے موتیوں کے درمیان فاصلے کے لیے پروئے جاتے ہیں۔ ضمناً عرض ہے کہ اس ترکیب کے جزو ثانی ’قِلادَہ ‘ کو اردو میں غلط طور پر ’قلاوہ‘ کہا جاتا ہے۔
’فصل‘ سے ایک لفظ ’اَلفَصِیلُ‘ ہے، جو اونٹ کے اُس بچے کو کہتے ہیں جس کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہو۔ (فوٹو: پکسا بے)
یہی ’قلادہ‘ لفظ ’تقلید‘ اور ’مقلد‘ میں بھی کارفرما ہے وہ یوں کہ ’قلادہ‘ کے معنی میں ہار اور گلوبند کے علاوہ گلے کا پٹا بھی شامل ہے۔ اسی پٹے کی رعایت سے سپردگی اور کسی کے قدم بہ قدم چلنے سے ’تقلید‘ کا مفہوم پیدا ہوا اور جس کے قدم بہ قدم چلا گیا وہ ’مُقَلَد‘ اور جو چلا وہ ’مُقَلِد‘ کہلایا۔ اب اس ’مُقلِد‘ کی رعایت سے خواجہ الطاف حسین حالی کا خوب صورت شعر ملاحظہ کریں:
حالی سخن میں شیفتہ سے مستفید ہے
غالب کا معتقد ہے مقلد ہے میر کا
اب واپس ’فصل‘ پر آتے ہیں اور اس سے مشتق ’فاصل، فیصل، فیصلہ اور فصیل‘ کی بات کرتے ہیں۔ ’فاصل‘ کے معنی جدا اور الگ کرنے والے کے ہیں، جب کہ قضیہ سے متعلق ’فاصل‘ کا حکم ’فیصل اور فیصلہ‘ کہلاتا ہے، جسے فارسی و اردو میں ’فیصل نامہ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اب اس ’فصل‘ کو بصورت ’فصیل‘ دیکھیں۔ ’فصیل‘ شہرپناہ یعنی شہر یا قلعے کی دیوار کو کہتے ہیں، وہ اس لیے کہ یہ دیوار دشمن اور شہر کے درمیان فاصلہ پیدا کر دیتی ہے۔ اب لگے ہاتھوں ’فصل‘ بمعنی ’موسم‘ پر غور کریں کہ کس طرح چاروں موسم اپنے اپنے مزاج میں ایک دوسرے سے فاصلہ پیدا کرتے اور اس رعایت سے ’فصل‘ کہلاتے ہیں۔
یہاں تک پہنچ کر آپ پوچھ سکتے ہیں کہ اس ’فصل‘ کا کتاب سے کیا تعلق ہے؟ تو عرض ہے کہ ’فصل‘ کے معنی میں ’جدائی، فرق اور علیحدگی‘ کے علاوہ ’اوٹ اور پردے‘ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے، اس لیے کتاب میں مختلف موضوعات یا عنوانات کے تحت تقسیم ہر حصہ ’فصل‘ کہلاتا ہے۔ اس بات کو بھی میر انیس کہہ گئے ہیں:
منظور ہے اک باب میں دو فصل کی تحریر
اب لفظ ’باب‘ کی بات کرتے ہیں، یہ بھی عربی زبان سے متعلق ہے اور معنی ’دروازہ‘ کے ہیں۔ مفرد اور مرکب صورت میں اردو میں ’باب‘ کا استعمال عام ہے، اسے بابِ رحمت ، بابِ السلام اور بابِ علم کی سی تراکیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
کسی کتاب کا وہ حصہ یا جُز بھی ’باب‘ کہلاتا ہے، جو تقسیم مضامین یا ترتیب واقعات کے لحاظ سے علیحٰدہ ہو۔ پھر ’باب‘ کے مفہوم میں دربار اور درگاہ بھی داخل ہیں، اسے ’باب عالی‘ کی ترکیب میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ’باب‘ کے دیگر معنی میں ’معاملہ، امر، نوع ، طرح ، شق ، مد اور حد‘ وغیرہ شامل ہیں۔اس بات کو ’مرتضیٰ برلاس‘ کے شعر سے سمجھیں، جن کا کہنا ہے:
یہ مرحلے بھی محبت کے باب میں آئے
خلوص چاہا تو پتھر جواب میں آئے
’شیرازہ‘ اُس دھاگے یا ڈوری کو کہتے ہیں جس سے کتاب کے مختلف اجزاء کو باہم جوڑنے کا کام لیا جاتا ہے.۔ (فوٹو: پکسا بے)
ہماری جستجو کا تیسرا ہدف ’شیرازہ‘ ہے، جو فارسی لفظ ہے۔ ’شیرازہ‘ اُس دھاگے یا ڈوری کو کہتے ہیں جس سے کتاب کے مختلف اجزاء کو باہم جوڑنے کا کام لیا جاتا ہے، اور اس نسبت سے کتاب کی جلد بندی یا جُزبندی کو 'شیرازہ بندی' بھی کہتے ہیں۔ پھر جُڑنے اور جوڑنے کی رعایت سے اجتماع، انتظام، سلسلہ اور بندش کو بھی ’شیرازہ‘ کہا جاتا ہے۔
کتاب کے مختلف اوراق کو جوڑے رکھنے والا یہ ’شیرازہ‘ اگر ٹوٹ جائے تو کتاب کو ’اوراق پریشاں‘ بننے میں دیر نہیں لگتی، اس نسبت سے بدنظمی اور انتشار کو ’شیرازہ بکھرنا‘ کہتے ہیں، جب کہ اس کے برخلاف اتحاد و یکجہتی کو ’شیرازہ بندی‘ کہا جاتا ہے۔ دیکھیں علامہ اقبال کیا فرما رہے ہیں:
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
’شیرازہ‘ اصلاً فارسی سے متعلق ہے، اس لیے اس سے بننے والی تراکیب بھی اردو کی بہ نسبت فارسی میں کہیں زیادہ ہیں، مثلاً ’شیرازہ بستن، شیرازہ زدن، شیرازہ شدن، شیرازہ کردن، شیرازہ بستہ، شیرازہ بند، شیرازہ زنی، شیرازہ کش اور شیرازہ کشی‘ وغیرہ۔
اب لفظ ’کتاب‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس لفظ کے معنی دلچسپ بھی ہیں اور ان میں وسعت بھی پائی جاتی ہے۔ کہنے کو تو لکھے یا چھپے ہوئے اوراق کا مجموعہ ’کتاب‘ کہلاتا ہے، مگر اس کتاب کی اصل ’اَلکَتبُ‘ ہے، جس کے معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملا کر سی دینے کے ہیں۔ اسی لیے کہ جاتا ہے ’کَتَبتُ السِّقَاءَ‘ یعنی میں نے مشکیزہ سی دیا۔
امام راغب اصفہانی کے مطابق ’عرف عام میں ’اَلکَتبُ‘ کے معنی حروف کو تحریر کے ذریعے باہم ملا دینے کے ہیں، مگر کبھی اس حروف کو تلفظ کے ذریعے باہم ملا دینے پر بھی بولا جاتا ہے۔ یوں تو ’کِتَابَۃ‘ کے اصل معنی تحریر کے ذریعے حروف کو باہم ملا دینے کے ہیں مگر بطور استعارہ کبھی معنی تحریر اور کبھی بمعنی تلفظ استعمال ہوتا اس بنا پر کلام الہٰی کو کتاب کہا گیا ہے، گو (اس وقت) قید تحریر میں نہیں لائی گئی تھی۔‘
کتاب کی اصل ’اَلکَتبُ‘ ہے، جس کے معنی کھال کے دو ٹکڑوں کو ملا کر سی دینے کے ہیں۔ (فوٹو: پکسا بے)
چوں کہ لکھنے کے عمل میں حروف لفظ بنتے اور الفاظ فقرے اور جملے میں ڈھلتے ہیں، یوں ایک کلمہ وجود میں آتا ہے، اس لیے لکھنے لکھانے کا عمل ’کاتب، کتابت اور مکتوب‘ کے سے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ اب زیر بحث کتاب کی رعایت سے اسلام آباد کے طارق نعیم کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: