ٹِم پین نے ٹیم کی قیادت سے استعفیٰ جمعے کو ہوبارٹ میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلوی ٹیم کی کپتانی ’ان کی زندگی کا سب سے بڑا‘ اعزاز تھا۔
تاہم ان کا اصرار تھا کہ ابھی بھی وہ انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیلنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں.
’میں آسٹریلوی ٹیم کا ایک پرعزم کارکن رہوں گا اور بڑے ایشز ٹور کا انتظار کررہا ہوں۔‘
36 سالہ ٹِم پین نے غمزدہ الفاظ میں کہا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے کھیل کی شہرت کو نقصان پہنچا۔‘
ٹِم پین کا کہنا تھا کہ ’قریبا چار برس قبل میں اس وقت کی ایک ساتھی کے ساتھ ٹیکسٹ میسجز کے تبادلے میں ملوث تھا جو کہ پبلک ہوگئے تھے۔‘
’سنہ 2017 میں کیا جانے والا میرا یہ اقدام آسٹریلوی ٹیم کے شایان شان تھا نہ ہی کمیونٹی کی اخلاقیات کے مطابق۔‘
نیوز کانفرنس کے دوران ٹِم پین نے جذباتی انداز میں بتایا کہ ’میں آسٹریلیا کی ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی سے مستعفی ہورہا ہوں، برسوں پرانے سکینڈل کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنے آنسوؤں کو بھی نہ روک پائے۔‘
ٹم پین کا اصرار تھا کہ وہ ابھی بھی انگلینڈ کے خلاف سیریز کھیلنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وکٹ کیپر بیٹسمین نے 2018 میں بال ٹیمپرنگ سکینڈل کے بعد ٹیسٹ ٹیم کی قیادت سنبھالی تھی۔ بال ٹیمپرنگ سکینڈل کے بعد اس وقت کے کپتان سٹیو سمتھ اور ان کے نائب ڈیوڈ وارنر کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔
ٹم پین کی نیوز کانفرنس کے بعد کرکٹ آسٹریلیا نے ایک بیان ان کا استعفیٰ منظور کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ایک طریقہ کار کے تحت ٹیم کے نئے کپتان کا تقرر کی جائے گا۔‘