Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبات کے لیے ناکافی ہوسٹلز: وسائل کی کمی یا صنفی امتیاز؟

یونیورسٹی میں کل 26 ہاسٹلز ہیں جن میں سے 11 لڑکیوں کے ہیں. (فوٹو: وی سی جی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہوچکی ہے۔ تاہم طالبات کے لیے ہاسٹلز کی سہولت آج بھی لڑکوں کی نسبت کہیں کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے پرائیویٹ ہاسٹلز کھل چکے ہیں جو تعلیم کے لیے رہائش کی اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  
سیدہ ماجدہ کا تعلق جہلم سے ہے اور وہ پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ہیں۔ انہوں نے سال 2019 میں داخلے کے وقت ہاسٹل کے لیے بھی درخواست دی تھی البتہ ہاسٹل لینے والی طالبات کی فہرست میں ان کا نام نہیں آ سکا اور انہیں پرائیویٹ ہاسٹل میں بندوبست کرنا پڑا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’یہ پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، لیکن یہاں پر بھی لڑکیوں کے لیے لڑکوں کی نسبت بہت کم سہولیات ہیں۔ میرا داخلہ ہونے کے باوجود میں یونیورسٹی کے ہاسٹل میں نہیں رہ پائی اور آپ اس چیز کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ میرے تعلیمی اخراجات میں کتنا اضافہ ہو چکا ہے۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’سرکاری ہاسٹل میں رہنے کے لیے آپ کو ماہانہ 10 سے 15 ہزار روپے برداشت کرنے پڑتے ہیں، جبکہ پرائیویٹ رہائش کے لیے یہ ڈبل سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ جب داخلہ لیا تھا تو گھر والوں کوامید تھی کہ ہاسٹل مل جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یونیورسٹی والے کہتے ہیں کہ ہاسٹلز میں پہلے ہی گنجائش سے زیادہ طالب علم ہیں۔‘
ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہونے کے ناطے جامعہ پنجاب میں اس وقت 50 ہزار کے قریب طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کی اپنی ویب سائیٹ کے مطابق اس وقت طالبات کی تعداد 51 فیصد، جبکہ طلبا کی تعداد 49 فیصد ہے یعنی لڑکیوں کی تعداد دو فیصد زیادہ ہے۔  
یونیورسٹی میں کل 26 ہاسٹلز ہیں جن میں سے 11 لڑکیوں کے ہیں، جبکہ ہر ہاسٹل میں 300 کے قریب لوگوں کے رہنے کا بندوبست ہے۔
ترجمان پنجاب یونیورسٹی محمد خرم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ طالبات کے لیے ہاسٹلز کی سہولیات کم ہیں، لیکن اس کے کئی اور بھی فیکٹر ہیں۔ جب ہاسٹلز کو پلان کیا گیا تھا اس وقت باہر سے آنے والے طلبا کی تعداد طالبات کی نسبت زیادہ تھی، لیکن بعد میں صورت حال تبدیل ہوئی۔'
'گذشتہ حکومت میں انتظامیہ نے چار ہاسٹل مانگے تھے جو کہ صرف لڑکیوں کے لیے بننا تھے، لیکن ابھی تک فنڈز جاری نہیں ہوئے اس لئے معاملہ کھٹائی میں ہے۔‘  

گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں لڑکیوں کے داخلے کا تناسب لڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ (فوٹو: پنجاب یونیورسٹی)

یہ صورت حال ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں ہی نہیں ہے، بلکہ دیگر یونیورسٹیز کا بھی یہی حال ہے۔ ملک کی سب سے ممتاز یونیورسٹیوں سے ایک گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور بھی ہے جہاں اس سال لڑکیوں کے داخلے کا تناسب لڑکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
انتظامیہ کے مطابق اس مرتبہ 60 فیصد لڑکیوں اور 40 فیصد لڑکوں کے داخلے ہوئے، جبکہ اس ادارے میں بھی طلبہ کےلئے تین ہاسٹل ہیں اور لڑکیوں کے لیے صرف ایک ہاسٹل ہے۔  
جی سی یو میں ہی تعلیم حاصل کرنے والی ایک طالبہ نورین علی (فرضی نام) اس وقت انار کلی کے علاقے میں ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں رہ رہی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کوبتایا کہ ’یہ ایک مشکل فیصلہ تھا جب میں نے گھر بتایا کہ مجھے ہاسٹل میں جگہ نہیں ملی اور اس کے لیے پرائیویٹ رہنا ہوگا۔ میری فیملی بھی ذرا زیادہ سخت ہے اور یہ فیصلہ ہوا کہ پرائیویٹ ہاسٹل نہیں بھیجنا۔ لیکن پھر بھائی نے ساتھ دیا اور مخالفت مول لے کے میں نے داخلہ لیا۔'
'یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ باہر سے آنے والے بچوں کےلیے ہاسٹلز کابندوبست کرے۔ ہم کوئی کم نمبر لے کر یہاں نہیں آئے۔ آدھے آدھے اور ایک ایک نمبر سے آپ ہوسٹل میں جگہ بنانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔‘  
اس حوالے سے ترجمان گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی مصدق سلطان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری یونیورسٹی کا معاملہ تھوڑا الگ ہے اس کی وجہ ہے کہ انٹرمیڈیٹ تک ہمارے پاس صرف لڑکے ہوتے ہیں اس لیے لڑکوں کے ہاسٹلز زیادہ ہیں البتہ اب اس چیز کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ لڑکیوں کی تعداد کے حوالے سے ہاسٹلز زیادہ ہونے چاہییں۔'
'اس لیے لڑکیوں کے ایک نئے ہاسٹل کی گرانٹ منظور ہو چکی ہے یہ عمارت بن رہی ہے امید ہے اگلے سال لڑکیوں کے بھی دو ہاسٹل ہو جائیں گے۔‘

بشری ماہ نور نے بتایا کہ ’یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ہماری بات کوئی نہیں سن رہا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی طالبہ راہنما بشری ماہ نور نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ہماری بات کوئی نہیں سن رہا۔ اور طالبات کی تعداد تعلیمی اداروں میں مسلسل بڑھ رہی ہے، لیکن ان کے لیے ہاسٹلز کی سہولیات بتدریج کم ہورہی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں جو یونیورسٹیز صرف عورتوں کے لیے مختص ہیں وہاں بھی ہاسٹلز کم ہیں۔ لاہور کالج یونیورسٹی اور ہوم اکنامکس یونیورسٹی دونوں میں ملا کےکل پانچ ہاسٹالز ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہاں ہزاروں کی تعداد میں طالبات تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس بات کا بھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں کہ کوایجوکیشن یونیورسٹیز میں طالبات زیادہ ہونے کے باوجود لڑکوں کے لیے ہاسٹلز زیادہ کیوں اور لڑکیوں کے لیے کم کیوں ہیں۔ یہ سیدھا سیدھا سسٹیمیٹک صنفی امتیاز ہے۔‘  

شیئر: