واضح رہے کہ انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم کو اس وقت زبردست دھچکے کا سامنا کرنا پڑا جب یارکشائر کاؤنتی کے پاکستانی نژاد کھلاڑی عظیم رفیق نے کچھ نمایاں ناموں کے متعلق انکشاف کیا کہ انہوں نے نسل پرستی پر مبنی تبصرے کیے ہیں۔
عظیم رفیق نے انگلینڈ کے سابق کپتان مائیکل وان پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے 2009 میں ایک کاؤنٹی میچ کے دوران ان کے اور یارک شائر کے دوسرے ایشین پس منظر رکھنے والے کھلاڑیوں سے نسل پرستی پر مبنی سلوک کیا تھا۔
مائیکل وان نے ان الزامات سے قطعی طور پر انکار کیا تھا جبکہ یہ الزامات سامنے آنے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے وان کو اگلے ماہ ہونے والی ایشز سیریز کی براڈکاسٹنگ ٹیم سے ’مفادات کے ٹکراؤ‘ کی بنیاد پر الگ کر دیا تھا۔
ایشلے جائلز نے آسٹریلیا میں برطانوی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ کے سکواڈ نے عظیم رفیق کے معاملے میں دلچسپی لے رہا ہے اور ان کی کہانی سننا کافی مشکل تھا۔
انہوں نے کہا کہ کھیل میں امتیازی سلوک پر مبنی رویے کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے نزدیک اگر زیرو ٹالیرنس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو کھیل سے الگ کر دیں ، انہیں دوسرا موقع نہ دیں، تو اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کو بحالی کا موقع نہیں دے رہے۔ (اگر یوں ہے) تو ہمارے ساتھ واقعی مسئلہ ہے۔‘
’مجھے یقین ہے کہ یہ محض کرکٹ نہیں ہے کہ جہاں ایسے واقعات پیش آتے ہیں بلکہ صاف بات یہ ہے کہ ہمیں ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں لوگ سامنے آئیں اور اس بارے میں بات کریں۔ اس کے لیے ہمیں سیکھنے اور شیئر کرنے کی اور صبر و تحمل کی ضرورت ہے۔