سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کے دوران عدالت نے سوال اٹھایا ہے کہ سکیورٹی افسران کی جانب سے ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو اس پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا گیا؟
مزید پڑھیں
-
سپریم کورٹ سے سرخرو ہو کر وکالت کروں گا: سابق جج شوکت عزیز صدیقیNode ID: 624051
-
فیصلہ پسند نہ آنے پر عدالتوں پر حملہ جائز نہیں: چیف جسٹسNode ID: 624141
پیر کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی پانچ رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کے لگائے گئے الزامات کی خفیہ تحقیقات کرائیں اور ان کے مؤکل کو ان تحقیقات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’جب جسٹس صدیقی کہتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو فلاں صاحب ان سے آ کر ملے تو اس بات کی تصدیق کے لیے ضروری ہے کہ اس کی کھلی تحقیقات ہوں اور ان سے کراس سوال کیے جائیں۔ کوئی تیسرا اس ملاقات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کر سکتا۔‘
اس پر بینچ کے رکن جسٹس سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے افسران ملے؟ جب حکام آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی، توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھا۔ آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو ایک سوال نامہ دیا گیا ہے جس میں چھ سوالات ہیں۔ آپ ان کے جوابات دے دیں تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا۔‘
اس دوران برطرف جسٹس شوکت صدیقی نے روسٹرم پر آ کر بات کرنے کی کوشش کی تو بینچ نے انہیں بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ کے وکیل بات کر رہے ہیں، اس لیے آپ خاموش رہیں۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ نوٹس جاری کرنا شوکت عزیز صدیقی کا کام نہیں تھا۔ ہم نے چیف جسٹس سے کہا تھا کہ متعلقہ افسران کو نوٹس جاری کر دیں تاہم انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس دوران حامد خان کے پاس کھڑے جسٹس صدیقی نے 'سر کیا میں اس لیے نکال دیا جاؤں گا کہ میں نے ایک جرنیل کو نوٹس جاری نہیں کیا؟ یہ کہہ کر جسٹس شوکت صدیقی اپنی نشست پر واپس بیٹھ گئے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ 28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے، آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا۔ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا؟
جسٹس سردار طارق مسعود کے ان سوالات کے بعد شوکت عزیز صدیقی دوبارہ کھڑے ہو گئے۔اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے حامد خان پر برہمی اظہار کیا اور کہا ’حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے۔ جب آپ کے موکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے۔ جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر معیاری ہے۔ آپ نے خاموش رہ کر شوکت عزیز صدیقی کی حوصلہ افزائی کی۔‘
وکیل حامد خان نے کہا کہ ’معذرت کرتا ہوں، جذبات میں آ جاتے ہیں۔‘
’آپ اپنے موکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں۔ آپ اپنے موکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نہ کریں۔‘
