پاکستان کی سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت صدیقی کی عہدے پر بحالی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ’شوکت عزیز صدیقی نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور عہدے کو نہیں سمجھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جسٹس صدیقی نے عدلیہ سے متعلق عوامی فورم پر گفتگو کرکے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی اور اور ایک ریاستی ادارے کے وقار کی دھجیاں اڑائیں۔‘
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے شوکت عزیز صدیقی کی عہدے پر بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
برطرف کیے گئے جج شوکت صدیقی سپریم کورٹ آئے تو کمرہ عدالت کے باہر موجود صحافیوں سے سلام دعا کے بعد وہ کمرہ عدالت کی طرف بڑھے تو پولیس اہلکاروں نے انھیں سیلیوٹ کیا اور وہ اندر چلے گئے۔
مزید پڑھیں
-
جسٹس شوکت کے الزامات کی تحقیقات کرائی جائے ،فوجی ترجمانNode ID: 285081
-
چیف جسٹس کمیشن بنائیں،جسٹس شوکت کا خطNode ID: 285181
-
شوکت عزیز صدیقی نے برطرفی کا فیصلہ چیلنج کردیاNode ID: 334596
کمرہ عدالت میں بھی ججز کے آنے سے پہلے بھی وہ وکلا سے ملتے رہے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل سہیل محمود روسٹرم پر آئے اور کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کے موقف پر اپنا بیان جمع کروانا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے بعض افسران پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہیں، افسران پر لگائے گیے الزامات من گھڑت بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔‘
برطرف جج شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ’جس بیان پر وفاقی کی جانب سے جواب دیا جا رہا ہے وہ نیا بیان نہیں ہے بلکہ پہلے سے پبلک بیان ہے۔ اپنے اس موقف پر میں نے بیان حلفی پر مشتمل جواب جمع کروانے کی کوشش کی۔ میری اضافی دستاویزات رجسٹرار آفس نے اعتراض لگا کر واپس کر دی ہیں۔‘

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’درخواست قابل سماعت ہونے کے حوالے سے پہلے اپنے دلائل مکمل کرلیں۔ اپنے دلائل کو آرٹیکل 211 سے کیسے جوڑیں گے؟ جج کو ہٹانے سے پہلے انکوائری کو لازمی قرار دینے کے حوالے سے اپنے موقف پر بھی دلائل مکمل کریں۔ تین سماعتیں ہونے کے باجود ابھی تک درخواست کے قابل سماعت ہونے کے حوالے سے ہی دلائل سن رہے ہیں۔‘
حامد خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس صدیقی کے خلاف الزامات کی انکوائری نہیں کرائی۔ انھوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے کے مختلف پیرا جات پڑھے اور ان پر دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا یہ سب کچھ انکوائری کے بعد ثابت ہونا تھا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ایک جج کا ضابطہ اخلاق اس کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ سرکاری ادارے کے افسران سے اپنے گھر پر ملاقات کرے، ان کی بات سنے یا کسی کیس سے متعلق ان کی رائے لے یا دے۔‘
اس پر حامد خان نے کہا کہ ’اگر انکوائری ہوتی تو یہ بات کلیئر ہونا تھی کہ یہ ملاقاتیں کس طرح ہوئیں اور ان ملاقاتوں میں ہونے والی باتوں کو ثابت کیا جاتا۔ اگر انکوائری ہوتی تو ججز کو طلب کرکے ان سے سوال کیے جاتے۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انکوائری نہ کرانے کی وجوہات بیان کی ہیں۔ جس پر حامد خان نے جواب دیا کہ آئین کے تحت انکوائری لازمی ہے اور کوئی عدالت آئین کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ اس لیے انکوائری نہ کرانے کی کوئی وجہ ہی نہیں بنتی۔
اس دوران جسٹس صدیقی اٹھ کر حامد خان کے پاس آئے اور ان کے کان میں سرگوشی کی۔ جس کے بعد حامد خان نے کہا کہ جسٹس صدیقی کا موقف ہے کہ ’انکوائری ہی ان کے پاس دفاع کا واحد موقع تھا جو نہیں دیا گیا۔‘
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے پبلک میں جا کر تقریر کی۔ اپ نے اپنی تقریر میں عدلیہ کے ادارے پر الزامات عائد کیے اور اسے بد نام کیا۔ بطور جج حلف اور ضابطہ اخلاق میں شامل ہے کہ اپ عدلیہ کا تحفظ کریں گے لیکن آپ نے جسٹس منیر کی تاریخ بیان کرتے کرتے موجودہ دور میں دیانت داری سے کام کرنے والے ججز کو بھی مورود الزام ٹھہرا دیا۔‘
کمرہ عدالت میں کورونا کی وجہ سے اے سی سسٹم ایک حد تک ہی کام کر رہا تھا اور گرمی تھی جس کے اثرات جسٹس صدیقی اور ان کے دائیں بائیں افراد کے چہروں پر بھی دیکھے جا سکتے تھے۔
