ویتنام میں اب کتے اور بلی کا گوشت نہیں ملے گا؟
شہر کے نائب میئر کا کہنا ہے کہ ’ہم جانوروں کی بھلائی چاہتے ہیں اور شہر کو سیاحت کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔‘ (فوٹو: پکسابے)
ویتنام کے سیاحتی شہر نے بلیوں اور کتوں کے گوشت کی فروخت پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے جو چین کے بعد دوسرا ملک ہے جہاں گوشت سب سے زیادہ کھایا جاتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ویتنام میں ہر سال ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ کے قریب کتوں کا گوشت کھایا جاتا ہے جہاں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گوشت کھانے سے بُری قسمت ان کے دور رہے گی۔
عالمی ثقافتی مقام اور تاریخی تجارتی بندرگاہ ہوئی آن میں حکام نے جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’فور پاز‘ کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس میں بلی اور کتے کے گوشت کی فروخت پر پابندی کا اعادہ کیا گیا ہے۔
شہر کے نائب میئر دا ہنگ کا کہنا ہے کہ ’ہم جانوروں کی بھلائی چاہتے ہیں اور شہر کو سیاحت کا مرکز بنانا چاہتے ہیں۔‘
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’فور پاز‘ کی عہدیدار جولی سینڈرز نے بتایا کہ یہ اقدام ایک ’ٹرننگ پوائنٹ‘ ہے جو ویتنام کے دیگر علاقوں کے لیے ایک مثال قائم کر سکتا ہے۔
ویتنام کے دارالحکومت ہنائی کے رہائشی فان وین کاؤنگ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میرا نہیں خیال کہ کسی کو کتے کے گوشت پر پابندی لگانی چاہیے۔ یہ ہمارا کلچر ہے۔‘
2018 میں ہونائی کے حکام نے شہریوں کو کتے کا گوشت نہ کھانے کا کہا تھا کیونکہ اس سے دارالحکومت کی شہرت متاثر ہو رہی تھی اور یہ لوگوں کو صحت کے مسائل سے بھی دوچار کر رہا تھا۔