Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گرہستنوں کوالجھا دینے والا سوال’’آج کیا پکے گا‘‘

بے چاری کو ’’جتنے منہ، اتنی باتیں ‘‘ کے مصداق ’’منہ در منہ ‘‘ سننا پڑتا ہے کہ ’’میں یہ نہیں کھاتا،وہ نہیں کھاتا

ثمینہ عاصم ۔ جدہ

ہرروز کا یہ سوال کہ آج کیا پکائیں،خواتین اسی میں الجھ کر رہ جاتی ہیں۔واقعی یہ ہر گھر کی گرہستن کے لئے انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔ صبح اٹھتے ہی ذہن سب سے پہلے پوچھتا ہے کہ آج کیا پکے گا، سارے دن کا شیڈول کیا ہے ،ناشتے میں کیا بنانا ہے ، دوپہر کو کیا کھایاجائے گا؟ بڑا بیٹا کیا کھاتا ہے، شوہر نامدار کو کیا پسند ہے۔ ساس اور سسر کیا کھائیں گے۔ خاتون خانہ، اہل خانہ کی پسند کی ایک ایک ڈش بنانے میں جُت جاتی ہیں اورسارا دن محنت میں گزار دیتی ہیں ۔ دوسری جانب اس گھر والے کھانا کھا کر، انگلیاں چاٹ کر کہتے ہیں کہ یہ پکایا ہے آپ نے؟ اس ایک جملے سے وے سارے دن کی مشقت کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ اس بے چاری کو ’’جتنے منہ، اتنی باتیں ‘‘ کے مصداق ’’منہ در منہ ‘‘ سننا پڑتا ہے کہ ’’میں توساگ نہیں کھاتا، میں چکن نہیں کھاتی، نمک تیز ہوگیا، مجھے گائے کا گوشت منع ہے، اوہ یہ دال تو بادی ہوتی ہے ناں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ ان ساری ڈشوں کو بنانے میں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے، چولھے کی کس قدرگرمی برداشت کرنی پڑتی ہے، یہ کوئی نہیں سوچتا۔ بھئی اگر ساگ نہیں کھانا تو چاول کھالیں۔ چکن نہیں کھانا تو آلو تناول فرمالیں۔ ہر روز دسترخوان کو دیکھیں تو چاول کے ساتھ دال، اسکے ساتھ سلاد اور چٹنی یا اچار ضروری سمجھا جاتا ہے۔ پکوڑوں کے بغیر کڑھی نہیں بن سکتی، میٹھا موجود ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر آلو یا گوبی کے پراٹھے بناؤ تو سلاد اور چٹنی ضروری ہے۔ گھر کا ایک فرد آلو کے پراٹھے پسند کرتا ہے تو دوسرا قیمے کے ، سب کے نخرے اُٹھانے اور وضع وضع کے پکوان پکانے کے بعدمیاں جی سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ بھلا تم سارا دن کرتی ہی کیا ہو؟ ایک کھانا ہی تو بنانا ہوتا ہے۔ اگر کسی چیز کی کمی ہوجائے تویہ سننے کو ملتا ہے کہ آپ نے آج دن بھر میںصرف دو ہی ڈشیں بنائی ہیں؟ آجکل ہر ایک کو اچھا کھانا ،اچھا پہننا اور عیش آرام چاہئے۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ آگے چل کر ان سب عیش و نشاط کا حساب بھی دینا ہوگا۔ اس لئے کھانے میں سادگی اختیار کرنی چاہئے ۔ اگر کوئی پوچھے کہ تمہاری زندگی کا مقصد کیا ہے تو ہم کہیں گے زبان کا چٹخارہ اور زندگی کے مزے۔ پہلے زمانے کے لوگ باکمال ہوتے تھے۔ دنیا کی لذت کو آزمائش کہتے تھے اور ان کے حساب کے خوف سے رونے لگتے تھے۔ آج کل دسترخوان پیزا، برگر، بریانی، چکن تکہ وغیرہ کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتا۔ دسترخوان بھی عجب شے ہے ۔ یہ انسان کو اپنے آپ میں الجھا کراسے حق سے دور کردیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ مرد کے دل کا راستہ معدے سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ فارمولا پتہ نہیں کس نے ایجاد کیا تھا تاہم اسکا انجام یہ ہوا کہ ساری خواتین مرد کے دل میں جگہ بنانے کیلئے جُت گئیں۔ ہر طرف افراتفری ہے، ہر کوئی بھاگ رہا ہے کوئی دوسرے کو پچھاڑنے کی فکر میں ہے ۔ زبان تو ذائقے سے کبھی سیر نہیں ہوتی ، معدے میں ہر وقت ہاضمے کا عمل جاری رہتا ہے۔ مرد یہ سب حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کی محنت کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جو کچھ کماتا ہے وہ سب کچھ دنیاوی چٹخارے، عمدہ لباس اور زیب و زینت پر خرچ کردیتا ہے۔ اس وقت ہم بھول جاتے ہیں کہ اللہ کریم کے ہاں ہمیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہے۔ دنیا زبان کا چٹخارہ ہے۔ اچھا کھانا پینا معیوب نہیں مگر ذرا سوچئے کہ نفس کی خواہشات سے مغلوب حالت اور بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ کیا خاک عبادت ہوگی۔ گنجائش سے زیادہ پیٹ بھر جانے سے عبادت کرنا مشکل ہو جاتی ہے ،خشوع و خضوع نہیں رہتا ، ذہن میںعجیب عجیب خیالات درآتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ یہ دسترخوان ہماری نسلوں کوکس طرح تباہ کررہا ہے۔یہ ہمیں عبادات کی چاشنی سے محروم کرتے ہوئے لذت کی دوڑ میں لگا نے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھرا ہوا پیٹ اور چٹوری زبان ، روحانی حلاوت کو پا ہی نہیں سکتی۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ہماری پسماندگی، تنزلی اور محتاجی کا اصل سبب کہیں یہ چٹوری زبا ن تو نہیں۔ہماری عادت ہو چکی ہے کہ ہم ایک ہی پکوان پر صبر نہیں کرتے ، طرح طرح کے کھانے اور زبان کی لذت ہمیں رشوت، سود، ملاوٹ اور چوری و بے ایمانی پر مجبور کرتی ہے۔

شیئر: