کیا ’پولیس مقابلوں‘ سے جرائم کی شرح کم ہو جاتی ہے؟
کیا ’پولیس مقابلوں‘ سے جرائم کی شرح کم ہو جاتی ہے؟
پیر 13 دسمبر 2021 19:30
اے وحید مراد -اردو نیوز، اسلام آباد
سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ نے کہا کہ ’کئی جگہوں پر پولیس مقابلے درست ہوئے ہیں اور کئی جگہوں پر غلط۔‘ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں آئے روز پولیس مقابلوں میں ملزمان اور شہریوں کی ہلاکت کی خبریں معمول ہیں اور ان مقابلوں کے درست یا غلط ہونے پر معاشرے کے مختلف طبقات میں بحث بھی چلتی رہتی ہے جبکہ عدالتوں میں متعدد پولیس مقابلوں کے مقدمات بھی زیرِسماعت ہیں۔
دنیا کے کسی بھی مہذب اور قانون پسند معاشرے میں ماورائے عدالت کسی بھی قتل پر سخت ردعمل سامنے آتا ہے مگر پاکستان میں اعلٰی پولیس عہدیدار بھی ملزمان کا ٹرائل مکمل ہونے سے قبل ہلاکت پر متفقہ رائے نہیں رکھتے۔
پیر کو لاہور میں ایک تقریب سے خطاب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی جانب سے پولیس مقابلوں کے بارے میں بیان اور انگریز دور کے پولیس نظام کی بحالی کی خواہش ظاہر کرنے سے اس حوالے سے بحث ایک بار پھر شروع ہو رہی ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پولیس مقابلے نوے کی دہائی میں شروع ہوئے اور سنہ 1999 تک ان مقابلوں میں لگ بھگ ایک ہزار 858 افراد مارے گئے۔
اردو نیوز نے پولیس مقابلوں میں ملزمان کی ہلاکت اور اس کے معاشرے پر اثرات کے ساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ کیا ماورائے عدالت ان مقابلوں سے جرائم کا خاتمہ یا ان میں کمی ممکن ہے؟
پنجاب پولیس کے سابق سربراہ ذوالفقار چیمہ کے ساتھ جب یہ سوال رکھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ’پاکستان کے ہر ضلعے میں پولیس مقابلے ہوئے ہیں اور ہوتے بھی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہر ضلعے کے پولیس افسر سے ان مقابلوں کے کرائم ریٹ پر پڑنے والے اثر کے بارے میں پوچھا جائے اور پھر رائے دی جائے۔
ذوالفقار چیمہ نے بتایا کہ کراچی میں تو بے شمار پولیس مقابلے ہوئے ہیں جن میں سے کئی پر سوال اٹھتے ہیں۔
افضل علی شگری جو سندھ پولیس کے سابق سربراہ ہیں، نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’پولیس مقابلے سرے سے غیرقانونی ہیں اور معاشرے کے لیے غلط ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بالکل نہیں ہونے چاہئیں، جوڈیشل سسٹم کو بہتر بنا کر جرائم کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پولیس کو پروفیشنلی مضبوط بنایا جائے۔‘
پنجاب کے ایک اور سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس چوہدری یعقوب سمجھتے ہیں کہ پولیس مقابلوں سے جرائم کی شرح گِر جاتی ہے۔
چوہدری یعقوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پولیس مقابلوں سے مجرموں کو ایک پیغام چلا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی علاقے میں پولیس مقابلے کے بعد وہاں کے بڑے جرائم پیشہ عناصر بھاگ جاتے ہیں۔
پولیس مقابلے کے درست یا غلط ہونے کے حوالے سے سابق آئی جی ذوالفقار چیمہ نے کہا کہ ’کئی جگہوں پر پولیس مقابلے درست ہوئے ہیں اور کئی جگہوں پر غلط بھی ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ کئی مقابلوں میں بڑے اور خطرناک مجرم مارے گئے۔ ’کئی جگہوں پر حکومتوں کے کہنے پر اور ایجنسیوں کے کہنے پر پولیس مقابلے کیے گئے جو بذاتِ خود ایک غلط عمل ہے۔‘
خیال رہے کہ کراچی میں سابق پولیس افسر راؤ انوار پر درجنوں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کے مقدمات زیرِ سماعت ہیں اور وہ کچھ عرصے تک روپوش بھی رہے جس کے بعد سپریم کورٹ میں پیش ہو کر خود کو قانون کے حوالے کیا۔
سابق آئی جی سندھ افضل علی شگری کہتے ہیں کہ ’جرم کی جو سزا عدالت سے قانونی طریقہ کار مکمل ہونے کے بعد دی جاتی ہے اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔‘
ان کے مطابق پولیس مقابلے اصولی طور پر غلط ہیں جن سے اتفاق کیا جا سکتا ہے اور نہ ان کی حمایت کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مقابلے میں ملزمان کی ہلاکت غیرقانونی، غیر اخلاقی ہے اور کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا اور اس سے معاشرے میں وحشت بڑھتی ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ پولیس مقابلوں میں ملزمان کو ہلاک کرنے کے بجائے تفتیش کے نظام کو بہتر بنا کر عدالتوں سے سزا کیوں نہیں دلوائی جاتی؟ تو افضل شگری کا جواب تھا کہ ’اس کے لیے سیاسی عزم کی کمی ہے۔ پولیس کو خودمختار کیا جائے تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ جب آئی جیز کو روز تبدیل کیا جائے گا تو وہ فورس کی کمانڈ کرنے کے قابل کیسے ہوگا؟‘
لاہور میں اپنے خطاب کے دوران وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پنجاب میں پولیس مقابلوں کا الزام سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف پر لگاتے ہوئے کہا کہ ان کے دور میں سب سے زیادہ جعلی پولیس مقابلے ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ساڑھے پانچ ہزار افراد ماورائے عدالت پولیس مقابلوں میں قتل ہوئے، ان میں سے دو تہائی شہباز شریف کے دور میں مارے گئے۔