توہین مذہب کا قانون، اقلیتوں کا خوف ختم کرنے کے لیے آگہی کمیٹی
توہین مذہب کا قانون، اقلیتوں کا خوف ختم کرنے کے لیے آگہی کمیٹی
بدھ 15 دسمبر 2021 17:19
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی میں عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کے نمائندے بھی شامل ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
سیالکوٹ واقعے کے بعد پاکستان میں موجود اقلیتوں میں توہین مذہب کے غلط استعمال کا خوف ختم کرنے اور آگاہی کے لیے ایک 20 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو ملک بھر میں اقلیتی عبادت گاہوں کے دورے کرے گی۔
اس بات کا اعلان وزیراعظم عمران خان کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر اشرفی نے اسلام آباد میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے ایک خصوصی گفتگو میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی میں عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
’ہم گرجا گھروں میں جا رہے ہیں۔ سب سے پہلے سیالکوٹ چرچ کا دورہ کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے غیر مسلم اقلیت کے بچوں کو آگاہ کریں گے کہ توہین مذہب ہے کیا اور ان کا خوف ختم کریں گے۔ ہم انہیں بتائیں گے کہ یہ ملک آپ کا بھی ہے آپ کو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔‘
طاہر اشرفی نے بتایا کہ سیالکوٹ میں توہین مذہب کے نام پر سری لنکن فیکٹری مینیجر کے بیہمانہ قتل کی علما سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے کھل کر مذمت کی ہے جس سے اقلیتوں کو اعتماد ملے گا۔
سیالکوٹ واقعے میں اس وقت 52 ملزمان گرفتار ہیں جس کا چالان تیار کیا جاچکا ہے اور تین پراسیکیوٹرز مقرر کرکے کیس کو جلد سے جلد منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال نومبر سے پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کے غلط استعمال کا ایک بھی واقعہ سامنے نہیں آیا جہاں کسی نے ذاتی جھگڑے یا کاروباری مفاد کے لیے کسی اقلیتی فرد کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا ہو۔ اس سلسلے میں علما بورڈ کے پاس اس عرصے میں 113 شکایات آئیں جن میں سے 103 کیسز میں ریلیف دیا گیا ہے۔
مذہب کی جبری تبدیلی کے اعدادوشمار غلط ہیں
طاہر اشرفی کے مطابق مخلتف این جی اوز کی جانب سے پاکستان میں مذہب کی جبری تبدیلی کے واقعات کے جو اعدادوشمار دیے جاتے ہیں تحقیق کرنے پر وہ غلط نکلتے ہیں۔
ان سے پوچھا گیا کہ اس حوالے سے حکومتی اعدادوشمار کیا ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اندرون سندھ میں چند مقامات پر شادی کے لیے لوگ مذہب کا نام غلط استعمال ضرور کرتے ہیں مگر وہ کوئی مذہبی مقصد نہیں ہوتا۔
’اس سلسلے کو روکنے کے لیے علما کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ مذہب کے تبدیلی کے لیے آنے والوں کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے سے پہلے تحقیق کریں کہ کہیں ان کے کوئی اور مقاصد تو نہیں۔‘