Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ: رپورٹ

ریسرچ کونسل کے مطابق پانی میں جراثیم کی تعداد واٹر سپلائی لائن کے خشک ہو جانے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک کے 29 بڑے شہروں کا پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ ہے۔ ملک میں پینے کے پانی کے تمام ذرائع کا اوسطاً 61 فیصد پانی جراثیم سے آلودہ ہوچکا ہے۔  
صوبی سندھ کے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام پر بسائے گئے شہر بے نظیرآباد سمیت میرپور خاص اور گلگت کا سو فیصد پانی جراثیم سے آلودہ اور پینے کے قابل نہیں جبکہ ملتان کا 94 فیصد، کراچی کا 93 فیصد، بدین کا 92 فیصد، حیدر آباد کا 80 فیصد اور اور بہاولپور کا 76 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
اردو نیوز کو دستیاب وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز 2001 سے ملک بھر میں پینے کے پانی کے معیار کو جانچنے کا کام کر رہا ہے۔ 2020-21 میں کونسل نے ملک کے 29 بڑے شہروں کے پینے کے پانی کے مختلف ذرائع سے نمونہ جات لے کر ٹیسٹ کیے تو معلوم ہوا ہے کہ ملک کا 61 فیصد پانی جراثیم زدہ اور پینے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔  
کن کن شہروں کے پانی کا تجزیہ کیا گیا؟  
وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مطابق پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور پنجاب کے شہروں بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، گجرات، قصور لاہور ملتان، راولپنڈی، سرگودھا شیخوپورہ، خیبر پختونخوا کے شہروں ایبٹ آباد، مینگورہ، مردان، پشاور، بلوچستان کے شہروں خضدار، لورالائی، کوئٹہ، سندھ کے بڑے شہروں حیدر آباد، کراچی، بدین، سکھر، میرپور خاص، ٹنڈو الہ یار، بے نظیر آباد جبکہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور گلگت بلستان کے دارالحکومتوں مظفرآباد اور گلگت سے پانی کے نمونہ جات لے کر ان کا تجزیہ کیا۔ 
ریسرچ کے مطابق ملک کے 29 بڑے شہروں سے پینے کے پانی کے 435 نمونہ جات لے کر انہیں قومی معیار کے لیے طے شدہ پیمانے پر جانچا گیا تو ان میں 168 یعنی 39 فیصد نمونہ جات پینے کے لیے محفوظ پائے گئے۔ دوسری جانب 267 نمونہ جات یعنی 61 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں پایا گیا۔

 رپورٹ کے مطابق پانی کی آلودگی کے معاملے میں سندھ میں صورت حال تشویش ناک ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جن بڑے شہروں سے پانی کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے 24 نمونے لیے گئے جن میں 17 محفوظ جبکہ سات غیرمحفوظ پائے گئے۔ فیصل آباد کا 59 فیصد پانی پینے کے لیے غیرمحفوظ پایا گیا جہاں سے 22 میں 13 نمونہ جات میں جراثیم پائے گئے۔ سرگودھا کے 83 فیصد نمونہ جات میں جراثیم اور صحت کے لیے نقصان دہ دھاتیں پائی گئیں۔ لاہور کا 31 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں پایا گیا۔ 
پشاور کا 50 فیصد، ایبٹ آباد کا 55 فیصد، خضدار 55 فیصد، لورالائی 59 فیصد اور کوئٹہ کا 65 فیصد پانی آلودہ اور پینے کے قابل نہیں ہے۔ اسی طرح سکھر کا 67 فیصد، مردان کا 45 فیصد، گوجرانوالہ کا 50 فیصد اور شیخوپورہ کا 50 فیصد پانی پینے کے لحاظ سے غیرمحفوظ پایا گیا ہے۔  
جن جن شہروں کے پانی کے نمونے لے کر تجزیہ کیا گیا، ان میں صرف گجرات اور سیالکوٹ ایسے شہر ہیں جن کے تمام نمونہ جات کے مطابق وہاں کا 100 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ ہے۔ گجرات اور سیالکوٹ سے 9،9  نمونہ جات لیے گئے اور وہ تمام محفوظ پائے گئے جبکہ قصور کے 10 میں سے 9 نمونہ جات جراثیم سے محفوظ پائے گئے ہیں۔  
صوبوں میں پینے کے پانی کا تجزیہ  
کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز وقتاً فوقتاً صوبوں کی سطح پینے کے پانی کا معیار جانچنے کے لیے تحقیق کرواتی رہتی ہے اور یہ سلسلہ 2001 سے جاری ہے۔  
تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پانی کی آلودگی کے معاملے میں سندھ میں صورت حال تشویش ناک ہے جہاں تمام تر کوششوں کے باوجود اب بھی 85 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔  
اس معاملے پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی نوٹس لیا اور جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جس نے اپنی سفارشات میں شہریوں کو صاف پانی مہیا کرنے کے اقدامات کرنے کا کہا لیکن اس کے باوجود کوئی قابل ذکر بہتر نہیں آئی۔ خیال رہے کہ 2005 میں سندھ میں 91 فیصد شہری آلودہ پانی پینے پر مجبور تھے اور 2021 میں بھی صورت حال بہت مختلف نہیں ہوئی۔  
بلوچستان میں سال 2004 سے 2006 کے دوران آلودہ پانی کی شرح 74 سے 86 فیصد تھی۔ 2010 میں یہ شرح 59 سے 83 فیصد ہوگئی اور 2021 میں بلوچستان کا 59 فیصد پانی آلودہ پایا گیا۔

بلوچستان میں سال 2004 سے 2006 کے دوران آلودہ پانی کی شرح 74 سے 86 فیصد تھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

محققین کا کہنا ہے کہ اگر بلوچستان میں پانی کی آلودگی روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو صوبے میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔  
خیبرپختونخوا میں ایک زمانے میں 74 سے 78 فیصد پانی پینے کے لیے محفوظ تھا تاہم 2010 میں یہ شرح 35 فیصد رہ گئی تھی جو اب قدرے بہتری کے ساتھ 48 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ صوبے کا 52 فیصد پانی اب بھی پینے کے قابل نہیں۔ اس پانی میں آئرن کی بڑی مقدار کی موجودگی ہے۔ اس کی وجہ صوبے میں لوہے اور دیگر معدنیات کے ذخائر کی ہو سکتے ہیں۔ 
صوبہ پنجاب میں 51 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ صوبے کے پینے کے پانی میں جراثیم، آرسینک، فلورائیڈ، ٹی ڈی ایس اور نائٹریٹ کی نشان دہی ہوئی ہے۔ حکام کو ان کی طرف توجہ دینا ہوگی۔ 
پانی کی آلودگی کی وجوہات کیا ہیں؟  
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں دیکھا جائے تو مک بھر میں آلودہ پانی کی شرح 82 فیصد سے 61 فیصد تک آ گئی ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ابتدا میں پانی کی آلودگی اور اس میں موجود جراثیم اور نقصان دہ دہاتوں کی جو نشان دہی کی گئی، ان کے تدارک کے لیے اقدامات نہیں ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کی آلودگی کے عناصر اب بھی وہی ہیں جو 20 سال قبل تھے۔

صوبہ پنجاب میں 51 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ریسرچ کونسل کے مطابق پانی میں جراثیم کی تعداد واٹر سپلائی لائن کے خشک ہو جانے کی وجہ سے بڑھ جاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی پائپ لائن میں ایک بیکٹریا موجود ہو، اس میں ایک ہفتہ پانی نہ آئے تو ان کی تعداد اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔  
اسی طرح زیر زمین پانی کے وہ ذخائر جو کسی جوہڑ یا آلودہ پانی کے کسی اور ذخیرے کے پاس موجود ہوں، وہ آبادی میں پیٹ کے امراض کا باعث بنتے ہیں کیونکہ اس سے زیرزمین پانی بھی متاثر ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت بھی متعدد مرتبہ گائیڈ لائنز جاری کر چکا ہے۔ 

شیئر: