پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی جانب سے قائمہ کمیٹیوں کے سربراہان کے اختیارات محدود کیے جانے اور متعلقہ وزارت کے علاوہ دیگر اداروں کے افسران کو کمیٹی میں بلانے پر عائد پابندی کے باعث قائمہ کمیٹیوں کا کام متاثر ہونے لگا ہے۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے کمیٹی سربراہان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ کے ساتھ معاملہ تحریری طور پر اٹھائیں گے۔
گذشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے اجلاس میں ووٹر فہرستوں کے معاملے الیکشن کمیشن کی بریفنگ کے دوران سینیٹرز کی جانب سے اعتراض اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ نادرا جب مخصوص علاقوں میں شناختی کارڈ ہی نہیں بناتا تو ووٹر فہرستوں میں نئے ووٹ کیسے رجسٹرڈ ہوں گے، بالخصوص خواتین کے ووٹوں کی تعداد کیسے بڑھے گی؟
مزید پڑھیں
-
’’بلیک لسٹ بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہے‘ قانونی حیثیت نہیں‘‘Node ID: 381686
-
سینیٹ ’دانا لوگوں کی کونسل‘ پاکستان میں کیوں بنائی گئی تھی؟Node ID: 540656
کمیٹی کے چیئرمین تاج حیدر نے کہا کہ ’ہمیں ایک نوٹیفکیشن بھیجا گیا ہے اور بار بار دکھایا جاتا ہے کہ ہم اس کمیٹی میں نادرا کو طلب نہیں کر سکتے۔‘
اس کے علاوہ بھی کمیٹیوں کے چیئرمین بارہا اجلاسوں کے دوران جب کسی ایک وزارت کی جانب سے معاملہ دوسری وزارت پر ڈالتے ہیں اور اس وزارت کے حکام موجود نہیں ہوتے تو وہ اس پر اپنی تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے کچھ قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ وہ چیئرمین سینیٹ کی جانب سے عائد ان پابندیوں پر کیا رائے رکھتے ہیں؟
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین سینیٹر تاج حیدر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں اپنی طاقت دکھانے کا کوئی شوق نہیں ہے لیکن کمیٹی میں کارروائی کا واحد مقصد نتائج کا حصول ہوتا ہے جس کے لیے کسی بھی ادارے کے حکام کو بلانے کا اختیار ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اس کے برعکس طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے اور کمیٹیوں کے کام کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں۔

ان کے بقول ’ کہا جا رہا ہے کہ نہ ہم خود کام کریں گے اور نہ آپ کو کام کرنے دیں گے۔‘
قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کے چئیرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’کمیٹی بنیادی طور پر ایوان کے کام کو ہی آگے بڑھا رہی ہوتی ہے لیکن اس کے پر قدغنیں لگا دینا جمہوری نظام میں نقصان دہ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’دیگر رکاوٹوں میں ایک یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جگہ کم ہے اس کے باوجود ہم کسی کمیٹی کا اجلاس باہر نہیں کر سکتے حالانکہ اس پر کوئی اضافی خرچہ بھی نہیں آتا کیونکہ وہ متعلقہ وزارت میں ہی ہونا ہوتا ہے۔
عرفان سدیقی نے بتایا کہ ’کمیٹی چئیرمین کا یہ اختیار بھی ختم کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ کسی معاملے پر ذیلی کمیٹی تشکیل دینی ہے تو وہ ایسا بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے لیے بھی چئیرمین سینیٹ کی منظوری درکار ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر ہمیں ہر صورت کسی دوسرے ادارے کے افسر کو بلانا پڑ جائے تو چئیرمین کی جانب سے منظوری کے بعد فائل واپس آنے میں ہفتے لگ جاتے ہیں اور اس دوران کمیٹی کا کام رکا رہتا ہے جو مجموعی پارلیمنٹ کا نقصان ہے۔‘
عرفان صدیقی کے بقول ’سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان سب باتوں کا ذکر سینیٹ کے قواعد میں موجود نہیں اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے۔‘
حکومتی چئیرمین قائمہ کمیٹی اس حوالے سے قدرے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ جب قائمہ کمیٹیوں کو ہر کسی کو بلانے کی اجازت ہوتی ہے تو ایک دوسرے کے کام میں مداخلت کرتی ہیں اور بعض امور اوورلیپ ہو جاتے ہیں۔
قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے چئیرمین اور حکومتی سینیٹر محسن عزیز نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’قائمہ کمیٹیاں دوسرے اداروں کو بہت زیادہ طلب کرتی تھیں۔ میرے پاس پچھلے دور میں پٹرولیم کمیٹی تھی لیکن کم ترقی یافتہ علاقوں سے متعلق کمیٹی اور بین الصوبائی رابطہ کی کمیٹی بھی پٹرولیم حکام کو بلا لیتی تھی۔‘
محسن عزیز نے بتایا کہ ’جب ہم ان کو بلاتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی اور کمیٹی میں مصروف ہیں یا جو معلومات وہ ہمیں دیتے تھے وہ پہلے کسی اور کمیٹی کو دے چکے ہوتے تھے۔‘
