ہم دنیا کے ساتھ ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں: افغان طالبان
ہم دنیا کے ساتھ ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں: افغان طالبان
پیر 24 جنوری 2022 18:22
اتوار سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مغربی سفارت کاروں کے ساتھ تاریخی بات چیت کرنے والے طالبان وفد کے رہنما نے کہا ہے کہ ’یہ اجلاس اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق تاہم عالمی برداری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان، جہاں آدھی سے زیادہ آبادی بھوک کے خطرے سے دوچار ہے، کی امداد کی بحالی سے قبل طالبان انسانی حقوق کا لازمی طور پر احترام کریں۔
ناروے کی جانب سے ایک تنازع دعوت نامے کو قبول کرنے کے بعد طالبان نے پیر کو امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی، یورپی یونین اور ناروے کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے۔
بند کمرے کے پیچھے ہونے والی یہ بات چیت اوسلو سے باہر سوریا موریا ہوٹل میں ہوئی، جہاں طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔
انہوں نے اس حقیقت کو سراہا کہ یہ مذاکرات اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ’ناروے کا ہمیں یہ موقع فراہم کرنا اپنے آپ میں ایک کامیابی ہے کیونکہ ہم دنیا کے ساتھ ایک ہی جگہ بیٹھے ہیں۔‘
’ان ملاقاتوں سے ہمیں یقین ہے کہ افغانستان کے انسانی، صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون حاصل ہوگا۔‘
واضح رہے کہ اوسلو میں مغرنی سفارت کاروں کے طالبان کے ساتھ تین روزہ مذکرات جاری ہیں۔ اتوار سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے ہیں۔
گذشتہ برس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ افغانستان کو عالمی سطح پر ملنے والی امداد بند ہو چکی ہے اور امریکہ نے بھی ملکی اثاثے منجمند کر رکھے ہیں۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’جیسا کہ ہم اتحادیوں، شراکت داروں اور امدادی اداروں کے ساتھ مل کر انسانی بحران سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم طالبان کے ساتھ اپنے تحفظات اور مستحکم، حقوق کا احترام کرنے والے اور کثیر الجہتی افغانستان میں اپنے مستقل مفاد کے حوالے سے واضح سفارت کاری جاری رکھیں گے۔‘
کسی بھی ملک نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے جسے امید ہے کہ اس طرح کی ملاقاتوں سے ان کی حکومت کو قانونی حیثیت دینے میں مدد ملے گی۔
ناروے کی وزیر خارجہ نے بھی زور دیا ہے کہ یہ مذاکرات طالبان کو تسلیم کرنے یا قانونی حیثیت دینے کے لیے نہیں ہیں لیکن انسانی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے ہمیں ملک کے اصل حکمرانوں سے بات کرنی چاہیے۔
دوسری جانب ماہرین اور افغان باشندوں نے ناروے کو طالبان کو دعوت نامہ دیے جانے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور دارالحکومت میں وزارت خارجہ کے باہر احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔