محمد شریف ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں اور ان کا تعلق ضلع جہلم سے ہے۔ ان کی پنشن ان کے مقامی ڈاک خانے میں آتی تھی لیکن گھر کے حالات بہتر ہونے کی وجہ سے وہ ماہانہ پنشن خرچ کرنے کے بجائے اس کو پاکستان پوسٹ کے سیونگ اکاؤنٹ میں جمع کرواتے رہے۔
مقصد ان کا یہ تھا کہ جب بچوں کی شادیوں کا وقت آئے تو ان کے پاس اچھی خاصی رقم موجود ہو۔ اور جب یہ وقت آیا اور ان کے پاکستان پوسٹ والے اکاؤنٹ میں رقم 12 لاکھ روپے سے بڑھ گئی تو انہوں نے اس کو حاصل کرنے کے لیے مقامی ڈاک خانے سے رجوع کیا۔
لیکن ڈاک خانے والوں نے انھیں بتایا کہ وہ اپنی رقم وصول نہیں کرسکتے کیونکہ پاکستان پوسٹ کے سارے سیونگ اکاؤنٹس نیشنل سیونگ کو منتقل کر دیے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان بدستور ایف اے ٹی ایف کے گرے لسٹ میں رہے گاNode ID: 611271
-
برطانوی راج کے وہ سپاہی جن کی پینشن آج بھی پاکستان میں آتی ہےNode ID: 639781
جب وہ اپنے پیسے لینے نیشنل سیونگز کے دفتر گئے تو ان کو بتایا گیا کہ ’ان کے کاغذی ریکارڈ کی ڈیجیٹیلائزیشن ہو رہی ہے اور اس کے مکمل ہونے تک ان کو ان کی رقم نہیں مل سکتی۔‘
اس بات کو دو ماہ ہوگئے ہیں محمد شریف پاکستان پوسٹ اور نیشنل سیونگ کے چکر کاٹ کاٹ کر تھک چکے ہیں لیکن انہیں اپنے ہی پیسے واپس نہیں مل رہے۔
لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ پاکستان پوسٹ میں اکاؤنٹ رکھنے والے 24 لاکھ سے زائد شہریوں کے اکاؤنٹس بھی ایک نیشنل سیونگز کو بھیج دیے گئے۔
اردو نیوز کو تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ اس منتقلی سے قبل پاکستان پوسٹ کے پاس کسی بھی بڑے بینک سے زیادہ مالی ذخائر تھے کیونکہ اس کے سیونگ اکاؤنٹس میں لوگوں نے اپنی عمر بھر کی جمع پونجی رکھی ہوئی تھی اور اس طرح ہر اکاؤنٹ میں لاکھوں روپے سے زائد کی رقم موجود تھی اور روزانہ ہونے والا کروڑوں روپے کا لین دین الگ تھا۔

وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے اس بارے میں اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پوسٹ کے معاملات میں ایک عرصے سے بے ضابطگیاں چل رہی تھیں جس کی وجہ سے اس پر ایف اے ٹی ایف نے اعتراضات کیے اور حکومت کو ان اکاؤنٹس کی منتقلی جیسے اقدامات اٹھانے پڑے۔
’پاکستان پوسٹ میں 70 سال سے ایک ہی نظام چلا آ رہا تھا۔ ادارے کے مالی معاملات ابتر تھے۔ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالتے ہوئے جو 40 اعتراضات لگائے ان میں سے 13 پاکستان پوسٹ سے متعلق تھے۔‘
’ہمیں گرے لسٹ سے نکلنا تھا تو ایسے اقدامات لینا ہماری مجبوری تھی اس لیے سیونگ اکاؤنٹس کو نیشنل سیونگ کو منتقل کرنا پڑا۔ پوسٹل لائف انشورنس کو ایک ریگولیٹر کے تحت ایک پرائیویٹ کمپنی بنا کر چلانا پڑا۔‘
مراد سعید کا کہنا ہے کہ ’ہر ادارے کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے کسٹمر کے بارے میں معلومات رکھتا ہو لیکن سیونگ اکاؤنٹ ہولڈرز میں سے بہت سوں کی معلومات ادھوری اور کاغذوں پر تھیں جنھیں ڈیجیٹل میں تبدیل کرنا لازمی ہے۔‘
پاکستان پوسٹ کے ملک بھر میں تین ہزار سے زیادہ دفاتر ہیں جہاں پر مالی خدمات فراہم کی جاتی تھیں۔ صرف اسلام آباد میں 80 دفاتر میں یہ کام ہو رہا تھا۔ اسلام آباد میں اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد 80 سے 90 ہزار، راولپنڈی میں 9 لاکھ اور لاہور میں 12 لاکھ سے زائد ہے۔ کراچی، پشاور، ملتان، فیصل آباد کوئٹہ اور دیگر بڑے شہروں میں لاکھوں کے حساب سے اکاؤنٹ ہولڈرز ہیں جن کے اکاؤنٹس میں ایک اندازے کے مطابق 200 ارب سے زائد رقم موجود تھی۔
اکاؤنٹس کی منتقلی کے بعد پاکستان پوسٹ پر اضافی بوجھ ان ملازمین کا بھی پڑ گیا ہے جو ان کھاتوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور اب ان کے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔ اور حکومت ان کو نکالنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

پاکستان پوسٹ میں بے یقینی
اردو نیوز نے پاکستان پوسٹ کی مالی خدمات محدود کرنے کے فیصلے کے بعد اسلام آباد میں جی پی او اور کچھ دیگر دفاتر میں ملازمین سے صورت حال جاننے کی کوشش کی تو کچھ ملازمین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان پوسٹ کی مالی خدمات کے شعبے بند ہونے کی ذمہ داری اعلی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ کیونکہ 2016 میں سپریم کورٹ کے پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹلائز کرنے کے احکامات کے باوجود یہ کام نہیں کیا گیا۔
اس کے لیے تین مرتبہ ملکی و غیر ملکی فرمز کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن یہ تمام کام پیسے خرچ کرنے اور کاغذی کارروائی سے آگے نہ بڑھ سکا۔
ملازمین کے مطابق ان میں اس لیے بھی بے چینی پائی جاتی ہے کیونکہ نہ صرف پوسٹ آفس کے صارفین کے اکاؤنٹس منتقل کیے گئے بلکہ اس کی مختلف مالیاتی خدمات جیسے کہ اسلحہ لائسنس اور گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس کی وصولی بھی پاکستان پوسٹ سے لے کر محکمہ ایکسائز اور وزارت داخلہ کو دے دی گئ۔ یہاں سے ادا کی جانے والی پنشن کی فراہمی کا سلسلہ بھی بینکوں کو منتقل کیا جا رہا ہے۔ جس کے بعد اس ادارے کا کام محض خطوط کی ترسیل ہی رہ جائے گا۔
ملازمین کے مطابق ’ادارے میں گاڑیوں کے لیے پٹرول تک کے پیسے نہیں ہیں اور تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کے بعد امور چلانا مشکل ہو رہا ہے۔‘
