مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یوسف ہے چاک چاہتا ہے
’دستِ زلیخا‘ اور ’دامنِ یوسف‘ کی سی دلکش تشبیہات سے سجا یہ شعر احمد فراز کا ہے، پھر جس خوبصورتی سے اس میں عربی و فارسی کے الفاظ راہ یاب ہوئے ہیں، انہوں نے شعر کو قافلہ اردو کی ’خرگاہ‘ بنا دیا ہے۔
شعر میں ’مثال‘ عربی، ’یوسف و زلیخا‘ عبرانی، ’دست، دل، دامن، تپاک اور چاک‘ فارسی جب کہ ’یہ اور چاہتا ہے‘ کے الفاظ براہ راست اردو زبان سے متعلق ہیں۔ تاہم عربی، عبرانی اور فارسی کے یہ اسماء اور الفاظ ہماری زبان میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ’من و تو‘ کا فرق مٹ گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیلنڈر کہانی: جب لوگوں کی زندگی سے دس دن غائب ہو گئےNode ID: 527901
-
گدھا شیر سے بہتر ہے، مگر کیسے؟Node ID: 599606
-
فارسی لفظ جاپانی زبان میں کیا کر رہا ہے؟Node ID: 638021
جہاں تک لفظ ’مثال‘ کی بات ہے تو اس کی اصل ’مَثَلُ‘ ہے۔ امام راغب اصفہانی کے مطابق ’مَثَلُ‘ کے معنی ایسی بات کے ہیں جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعے دوسری کا مطلب واضح ہو جاتا ہو، یوں معاملے کی شکل سامنے آجاتی ہو۔‘
اردو زبان میں عربی کے ’مَثَلُ‘ سے پھوٹنے والے الفاظ ’مِثل، مثیل۔ مِثال، اَمثال، تمثال، تمثیل اور مثلاً‘ وغیرہ عام استعمال ہوتے ہیں۔ تاہم فطری طور پر عربی میں ’مَثَلُ‘ سے مشتق الفاظ کی تعداد، ان الفاظ کا اطلاق اور استعمال بہرحال اردو سے کہیں زیادہ ہے۔
اردو میں اگر بیباکانہ جواب دینا ’منہ در منہ‘ ہے، تو یہی طرزِعمل فارسی میں ’ترکی بہ ترکی‘ ہے، جب کہ عربی میں اسے ’مَثَلٌ بِمَثَلٍ‘ کہتے ہیں۔
ایسے ہی عربی میں زبان میں اداکار یا ایکٹر کو ’مُثِّلُ‘ کہتے ہیں کہ وہ کسی اور کے رویے کی ترجمانی کر رہا ہوتا، پھر کمشنر، ایجنٹ اور نمائندہ کو بھی مجازاً ’مُثِّلُ‘ کہتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں زیر بحث لفظ کی رعایت سے خالد حسن قادری کا شعر ملاحظہ کریں:
جسے مثیل سمجھتے ہو بے مثال ہے وہ
جو ایک بار ہو بار دگر نہیں ہوتا
![](/sites/default/files/pictures/January/36486/2022/wild-burro-front-scenic-cinematic-landscape-arizona_333098-117.jpg_copy.jpg)
اب ’یوسف و زلیخا‘ کی بات کرتے ہیں، جیسا کہ آغاز ہی میں عرض کیا ہے کہ یہ عبرانی نام ہیں۔ عبرانی میں ’یوسف‘ کا تلفظ ’یوسیف/וסף‘ ہے، جب کہ معنی ’اضافہ کرنا اور بڑھنا‘ کے ہیں۔ پھر یہی ’یوسیف‘ انگریزی میں بصورت ’جوزف/Joseph‘ برتا جاتا ہے۔
جہاں تک ’زلیخا‘ کا تعلق ہے تو اسے ’زلخ‘ سے نسبت ہے، عربی میں پاؤں پھسلنے کو ’زلخ‘ کہتے ہیں۔ پھر اس پھسلن کی رعایت سے جگہ کا پھسلواں ہونا ’تَزَلَّخَ‘ اور بچوں کے پھسلنے کا تختہ ’زُلَّخَةُ‘ کہلاتا ہے۔
اب ’زلخ‘ بمعنی پاؤں پھسلنا کو ذہن میں رکھیں اور قصہِ یوسف میں ’زلیخا‘ کے کردار پر غور کریں تو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اُسے یہ نام نیک راہ سے پھسل جانے کی وجہ سے ملا ہے۔ اب ’زلیخا‘ کی رعایت سے ’مقبولِ خاص‘ شاعر عزیز حامد مدنی کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
طلسمِ خوابِ زلیخا و دامِ بردہ فروش
ہزار طرح کے قصے سفر میں ہوتے ہیں
عربی اور عبرانی الفاظ کے بعد اب فارسی کے ’تپاک‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس تپاک کو فارسی مصدر ’تپیدن‘ سے نسبت ہے۔ اس ’تپیدن‘ کا قدیم املا ’طپیدن‘ بھی ہے، جس کی معرب صورت ’طبیدن‘ ہے۔ جب کہ تپیدن کے لفظی معنی ’تپنا/گرم ہونا‘ اور اصطلاحی معنی تڑپنا، پھڑکنا، دھڑکنا اور لرزنا کے ہیں، بالفاظ دیگر کہیں تو اضطراب و بے قراری کی کیفیت ’تپیدن‘ کہلاتی ہے۔
چوں کہ تپیدن میں ’تپ‘ کی رعایت سے ’گرمی‘ پائی جاتی ہے اس لیے ’گرمجوشی‘ کو ’تپاک‘ کہا جاتا ہے۔ دیکھیں جان ایلیا نے اس تپاک کو کس طور برتا ہے:
مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
![](/sites/default/files/pictures/January/36486/2022/wide-angle-shot-several-camels-sitting-trees-desert_181624-52740.jpg_copy.jpg)