’اقبال خاور‘ کے اس شعر میں کم از کم تین الفاظ ایسے ہیں جن کی وضاحت دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ پہلا لفظ ’دروازہ‘، دوسرا شاعر کا تخلص ’خاور‘ اور تیسرا لفظ ’دستک‘ ہے۔
پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ سنسکرت اور فارسی ماجائی بہنیں ہیں، اس لیے ان دونوں زبانوں میں مشترکہ الفاظ کی تعداد غیرمعمولی ہے۔ لفظ ’دروازہ‘ ہی کو دیکھ لیں، یوں تو اس کی اصل فارسی کا ’در‘ ہے، مگر یہی ’در‘ سنسکرت میں بصورت ’دُور/dur/दुर्' موجود ہے، پھر اسی سے لفظ ’دَوار‘ بھی ہے جس کے معنی پھاٹک، ڈیوڑھی، چوکھٹ اور آستانہ کے ہیں، پھر راستہ اور گزرگاہ بھی اس کی معنی میں شامل ہے۔
اس ’دَوار‘ کو دروازے کے معنی میں اختر نظمی کے دوہے میں ملاحظہ کریں، جن کا کہنا ہے:
سنسکرت کے ’دُوار‘ کے معنی میں ’دروازے‘ کی رعایت سے خود ’گھر‘ کا مفہوم بھی شامل ہے، اس بات کو ’ہری دوار‘ کی ترکیب سے سمجھ سکتے ہیں، جس کے لفظی معنی ’بھگوان کا گھر‘ ہے، تاہم یہ ہندو مذہب کی اُس مشہور مقدس جگہ کا نام بھی ہے جہاں سے گنگا ندی نکلتی ہے۔
زیر بحث لفظ ’داور‘ سے ’دُوارکا‘ بھی ہے۔ ’دَوارِکا‘ کے لفظی معنی ’کئی دوازوں والی‘ کے ہیں، جب کہ ہندوستان کے مغربی ساحل پر گجرات میں ایک مقدس شہر کا نام بھی ’دَوارِکا‘ ہے، جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ شہر کرشن جی کا دارالحکومت تھا۔
اب واپس فارسی کے ’د‘ پر آتے ہیں، جو فارسی میں ’دروازہ‘ کے پہلو بہ پہلو استعمال ہوتا ہے۔ تاہم ’در‘ کا مفہوم عام ہے، جب کہ دروازہ 'مین گیٹ' کے معنی میں برتا جاتا ہے۔
چوں کہ سنسکرت اور فارسی ’ہند یورپی‘ زبانوں کے گروہ سے تعلق رکھتی ہیں، اس لیے زبان کے اس سب سے بڑے گروہ میں لہجے کے فرق کے ساتھ بہت سے الفاظ مشترک ہیں مثلاً فارسی ’در‘ اور سنسکرتی ’دور‘ کے ساتھ انگریزی کے ’ڈور/door' پرغور کریں تو ہماری بات کی صداقت واضح ہوجاتی ہے۔ پھر دروازے کے معنی کے ساتھ یہی ’در‘ البانوی زبان میں ڈیرا/dera، ارمنی میں دور/durr/դուռ، ڈینش میں ڈوا/dør، ولندیزی میں ڈور/deur،المانوی میں ٹوا/Tür، آئرش میں ڈورس/doras، لگژمبرگش میں ڈی آ/Dier، ناروجین میں ڈور/dør اور روسی میں زبان میں دیر/dver کے تلفظ کے ساتھ موجود ہے۔ چوں کہ یہ فہرست خاصی طویل ہے اس لیے اسے یہی تمام کرتے اور جاپانی زبان کی بات کرتے ہیں۔
جاپانی زبان ’ہند یورپی‘ زبانوں کے گروہ سے یکسر الگ زبانوں کے ’جاپانائی گروہ‘ سے تعلق رکھتی ہے، مگر حیرت انگیزطور پر جاپانی زبان میں ’در‘ بصورت 'دُوا/ドア' موجود ہے، یہ صوتی مماثلت اتفاقی ہے یا فارسی کا ’در: ہی جاپانی میں ’دُوا‘ ہو گیا ہے، اس کا فیصلہ ماہرین پر چھوڑتے ہیں اور اس دروازے کی رعایت سے ایک اور دلچسپ بات کا ذکر کرتے ہیں۔
آج کل تُرشاوا (citrus) پھلوں کا موسم ہے، بازاروں میں کنّو، فروٹر، موسمبی، چکوترا، کھٹّا، مٹّھا ،ریڈ بلڈ اور شکری کی بہار آئی ہوئی ہے۔ ترشاوا پھلوں کی طویل فہرست میں 'مالٹا' بھی شامل ہے۔ غالباً ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ اس 'مالٹا' کو بحیرہ روم واقع ملک ’مالٹا‘ سے نسبت ہے۔
چوں کہ ہمارے یہاں یہ پھل ’مالٹا‘ سے آیا تھا اس لیے اسے ملک ہی کی نسبت سے مالٹا پکارا گیا، جب کہ سرزمین عرب میں یہ پھل بواسطہ ’پرتگال‘ راہ یاب ہوا تھا، اس لیے عربی میں اسے پرتگال کے تعلق سے ’برتغال‘ کہتے ہیں۔
خیر ذکر تھا ’جزائرمالٹا‘ کا جہاں بولی جانے والی ’مالٹیز‘ زبان پر عربی کا گہرا اثر موجود ہے۔ اس حوالے سے ہم ’قوسِ قُزح‘ کا ذکر کر چکے ہیں، جسے مالٹیز زبان میں ’قوس اللہ‘ یعنی اللہ کی کمان کہا جاتا ہے۔ عربی کے زیر اثر ہی مالٹیز زبان میں ’دروازے‘ کو ’بیب‘ کہتے ہیں، اور ذرا سا غور کرنے پر یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ ’بیب‘ دراصل ’باب: کی متغیر صورت ہے۔
چوں کہ دروازے اور دستک کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اس لیے ’خاور‘ کا ذکر مؤخر کرتے اور ’دستک‘ کی بات کرتے ہیں۔ لفظ ’دستک‘ کی اصل 'دست' یعنی ہاتھ ہے، اس میں حرف ’کاف‘ کا لاحقہ لگا کر ’دستک‘ بنایا گیا ہے۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ’کاف‘ جب کسی لفظ کے آخر میں لگایا جاتا ہے تو وہ دو معنی پیدا کرتا ہے۔ اول یہ اُس لفظ کی تصغیر بناتا ہے مثلاً بال سے بالک یعنی چھوٹا بچہ یا ڈھول سے ڈھولک یعنی چھوٹا ڈھول۔ دوسری صورت میں کاف کا لاحقہ اُس چیز سے نسبت ظاہر کرتا ہے۔ جیسے ٹھنڈ سے ٹھنڈک یا بیٹھنا سے بیٹھک وغیرہ۔ واضح رہے کہ بطور لاحقہ ’کاف‘ کے استعمال کی یہ دونوں صورتیں فارسی، اردو اور ہندی میں یکساں پائی جاتی ہیں۔
’دستک‘ میں ’کاف‘ نسبتی معنی میں آیا ہے، چونکہ عام طور پر دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ’دست‘ یعنی ہاتھ کا استعمال کیا جاتا ہے، اس لیے یہ عمل ’دستک‘ کہلاتا ہے۔ پھر ’دستک' کے معنی میں 'تالی' بھی داخل ہیں اور غور کریں تو آپ جب دستک دیتے ہیں تو ایک درجے میں تالی ہی بجا رہے ہوتے ہیں۔ اب اس 'دستک' کی رعایت سے ابن انشاء کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں: