سعودی عرب میں غذائی تحفظ کے لیے چھوٹے فش فارمز کا اہم کردار
چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری مملکت کے لیے اہم ہے. (فائل فوٹو: عرب فوٹو)
سعودی عرب کے غذائی تحفظ کے اہداف میں چھوٹے فش فارمز اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ بات ایک ماہر نے پیر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقدہ کانفرنس میں بتائی ہے۔
عرب نیوز کے مطابق اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کے تکنیکی مشیر پیڈرو گیمز نے کہا کہ چھوٹے پیمانے پر ماہی گیری مملکت کے لیے اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی تنظیم ماہی گیری مینجمیٹ میں متعدد انیشیٹوز کو نافذ کرنے کے لیے سعودی وزارت ماحولیات، پانی اور زراعت کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
پیڈرو گیمز نے کہا کہ مملکت میں چھوٹے فش فارمز کی تعداد تقریباً 26 ہزار ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن ایسے منصوبوں پر عمل درآمد کرے گی جن میں کسانوں کی تربیت، صلاحیت کی تعمیر، ٹیکنالوجی کو اپنانا اور دولت کا انتظام شامل ہے۔
یہ تبصرے ریاض میں سعودی بین الاقوامی سمندری نمائش اور کانفرنس کے آخری دن خاص طور پر بحیرہ احمر اور خلیج عدن پر محیط علاقائی ماہی گیری اتھارٹی کے قیام کے بارے میں ایک سیشن میں کیے گئے۔
اس سے پہلے سعودی حکومت نے کہا تھا کہ وہ اس اتھارٹی کی تشکیل کی قیادت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں ماہی گیری اور آبی زراعت کو اس کے اقتصادی تنوع کے اہداف میں ایک اہم محرک کے طور پر شناخت کرنا ہے۔
یہ کوششیں صرف منافع کے لیے نہیں ہیں۔ مشرق وسطی بشمول سعودی عرب گذشتہ برسوں سے غذائی تحفظ کے چیلنجوں سے نمٹ رہا ہے۔
ورلڈ بینک نے اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ’ساختی چیلنجز‘ خطے میں خوراک کی کوششوں میں رکاوٹ بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بگڑتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی مقامی زراعت کو متاثر کرتی ہے۔