زرداری کے گارڈز اور دو سیاسی خاندانوں کی تنہائی میں اہم ملاقات
زرداری کے گارڈز اور دو سیاسی خاندانوں کی تنہائی میں اہم ملاقات
ہفتہ 5 فروری 2022 18:03
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو مسلم لیگ ن صدر شہباز شریف نے مدعو کیا تھا۔ (فوٹو: پی ایم ایل این)
پاکستان کی دوبڑی اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان اچانک برف پگھلنا اتفاق ہے یا ایک سیاسی چال۔ اس بات کا اندازہ تو اگلے چند دنوں میں ہو ہی جائے گا۔
تاہم سنیچر کو لاہور میں ہونے والی شریف فیملی اور زرداری خاندان کی ملاقات بہرحال اپنی جگہ نہایت اہمیت کی حامل سمجھی جا رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف رہے ہیں اور اب بھی اس مخالفت کی جھلکیاں کبھی کبھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اسی طرح اس سیاسی مدوجزر میں قربت کے لمحات بھی آتے رہتے ہیں۔
جب گذشتہ روز رات گئے مسلم لیگ ن کی جانب سے میڈیا کو بتایا گیا کہ شہباز شریف نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہفتے کی دوپہر گھر میں کھانے پر مدعو کیا ہے اور مریم نواز بھی مہمانوں کا استقبال کریں گی تو سب کے لیے یہ بڑی خبر تھی۔
کھانے کی دعوت اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کی ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ پر رکھی گئی تھی اور وقت ڈیڑھ بجے کا رکھا گیا تھا۔
مریم نواز دو بجے پہنچی تو اڑھائی بجے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری بھی پہنچ گئے۔ تاہم اس وقت دو اہم چیزیں ہوئیں ایک تو آصف علی زرداری اپنا پرہیزی کھانا اور سندھ پولیس کے کمانڈوز سکیورٹی گارڈ اپنے ساتھ ہی لے کر کر آئے۔
لیکن گارڈ بھی باہر ہی رہے اور کھانا چھوٹے دروازے سے اندر پہنچا دیا گیا۔ جس سے ایک بات واضح تھی کہ یہ ملاقات محض کھانے کا بہانہ ہی ہے۔
ایک سب سے اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری پہلی مرتبہ چل کر شہباز شریف کے گھر آئے ہیں البتہ بلاول بھٹو زرداری دو مرتبہ آ چکے ہیں۔
جیسے ہی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی گاڑی گھر کے اندر پہنچی تو شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز ان کے استقبال کے لیے گھر کے صحن میں ہی کھڑے تھے۔
کورونا کے ایس او پیز پر مکمل عمل کیا جا رہا تھا۔ شہباز شریف اور زرداری نے ایک دوسرے سے کہنیاں ملا کر خیرسگالی کا اظہار کیا تو بلاول اور حمزہ نے ہتھیلیوں کے مکوں سے ایک دوسرے سے گرم جوشی کا اظہار کیا۔
گھر کے ڈرائنگ روم میں ملاقات شروع ہوئی تو میڈیا کو جو فوٹیج جاری کی گئی اس میں مسلم لیگ ن کی طرف سے شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق اور مریم اورنگ زیب نظر آرہے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور پارٹی کے پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ دکھائی دیے۔
لیکن یہ بندوبست فوٹیج بنانے تک ہی محدود رہا۔ 15 منٹ تک ایک دوسرے سے خیر سگالی کے اظہار اور موجودہ سیاسی صورت حال پر ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد ’اصل ملاقات‘ کا آغاز ہوا۔
شریف خاندان کے ایک معتبر ذریعے نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ پہلے سے ہی طے تھا کہ ملاقات میں صرف پانچ لوگ ہوں گے اور اسی حوالے سے ہی تمام انتظامات کیے گئے تھے۔ ابتدائی ملاقات کے بعد کھانا پیش کیا گیا اور اس کے بعد پھر دوسری اور اہم ملاقات شروع ہوئی۔‘
دو خاندانوں کے بیچ یہ ملاقات کوئی گھنٹہ جاری رہی جس میں صرف شہباز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز، بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز تھے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ملاقات اچانک نہیں تھی بلکہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔ اور ایسا کہنے کے لیے ان کے پاس ٹھوس وجہ ہے اور وہ یہ کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی لاہور آمد سے متعلق پیپلز پارٹی نے جمعے کے روز میڈیا کو آگاہ کیا لیکن وہ اس سے بھی ایک دن پہلے سے لاہور پہنچ چکے تھے۔
ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد میڈیا کو بھی اندر بلا لیا گیا۔ تاہم دو طاقت ور سیاسی خاندانوں کے درمیان حقیقی گفتگو کیا ہوئی اس کا تو نہیں بتایا گیا البتہ شہباز شریف کے پریس کانفرنس کے دوران ایک جملے سے بہت سی چیزیں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا ’اس ملاقات میں جو بھی فیصلہ ہوا ہے اس سے میں متفق ہوں۔ اب اس فیصلے کو میں پارٹی قائد نواز شریف، پارٹی کی سی ای سی اور پی ڈی ایم کے پاس لے کر جاؤں گا اور پھر میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔‘
سیاسی پنڈت یہی سمجھتے ہیں کہ اب معاملہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی طرف سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے بار بار مریم نواز سے یہ پوچھا کہ کیا اب بھی وہ بلاول کو سیلیکٹڈ سمجھتی ہیں؟ تو شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے کہا آپ لوگ بے فکر رہیں اب میں درمیان میں کھڑا ہوں۔