Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ہجوم کو مشتعل کیوں کیا؟‘ کرناٹک کے وزیر کی مسکان پر تنقید

سیکنڈ ایئر کی طالبہ مسکان کو ہجوم نے ہراساں کیا تھا۔ فوٹو: این ڈی ٹی وی
انڈیا کی ریاست کرناٹک کے ایک وزیر نے کالج کی طالبہ مسکان کے ہجوم کے سامنے ڈٹ جانے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مزاحمت کرنے میں پہل کی اور نعرہ لگا کر ہجوم کو مشتعل کیا۔
انڈین این ڈی ٹی وی کے مطابق وزیر برائے پرائمری و سیکنڈری تعلیم بی سی نگیش نے کہا ہے کہ زعفرانی رنگ کا مفلر پہنے ہوئے لڑکے مسکان کا گھیراؤ نہیں کرنا چاہتے تھے اور جب انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو ایک طالب علم بھی ان کے قریب نہیں تھا۔
وزیر نے سوال اٹھایا کہ ’مسکان نے کالج کیمپس میں اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ان کو کیوں مشتعل کیا؟ کیمپس پر اللہ اکبر یا جے شری رام (کے نعرے کی) حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا، حکومت کسی بھی شرپسند کو نہیں چھوڑے گی۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز مانڈیا کے  پی ای ایس کالج کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس  میں سیکنڈ ایئر کی مسکان نامی طالبہ کو دیکھا جا سکتا ہے جو اپنا سکوٹر کالج کی پارکنگ میں پارک کرتی ہیں اور کلاس کی جانب بڑھ رہی ہیں کہ لڑکوں کا ایک گروہ ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کی جانب بڑھتا ہے۔
برقعے میں ملبوس یہ طالبہ جواب میں اللہ اکبر کا نعرہ لگائے اپنی منزل کی جانب چلتی رہتی ہیں۔ جبکہ لڑکوں کا یہ ہجوم بھاگتے ہوئے ان کا پیچھا کرتا ہے لیکن وہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھتی جاتی ہیں۔
اس دوران فوراً ہی کالج کی انتظامیہ کے چند اہلکار موقع پر آئے اور انہیں ہجوم سے بچا کر لے گئے۔

مسکان کے مطابق وہ اسائٹمنٹ جمع کرانے کالج گئی تھیں۔ فوٹو: سکرین گریب

مسکان نے بعد میں این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ ’جب میں کالج میں داخل ہوئی تو وہ مجھے اجازت نہیں دے رہے تھے صرف اس لیے کہ میں نے برقعہ پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے جے شری رام کے نعرے لگانا شروع کر دیے تو میں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔‘
انہوں نے بتایا کہ کالج کی پرنسپل اور لیکچرر نے ان کی حمایت کی اور انہیں بچایا۔
مسکان کا کہنا تھا کہ ہجوم میں شامل اکثر مرد ایسے تھے جن کا کالج سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ ان میں سے صرف دس فیصد کو وہ کالج کے طالب علموں کے طور پر پہچان سکیں۔
کرناٹک کی ہائی کورٹ میں پانچ خواتین کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت جاری ہے جس میں حجاب سے متعلق پابندی پر سوال اٹھایا گیا ہے۔
دوسری جانب کرناٹک کے وزیر اعلیٰ نے تمام ہائی سکول اور کالجز کو تین دنوں کے لیے بند کرنے کے احکامات جارین کر دیے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کرناٹک کے ایک سرکاری سکول میں مسلمان طالبات کو حجاب پہننے سے روکا گیا تھا جس کے بعد دو اور تعلیمی اداروں میں بھی پابندی کے احکامات جاری کر دیے گئے تھے۔ پیر کو ریاست کرناٹک کے دو شہروں میں سینکڑوں کی تعداد میں افراد نے پابندی کے خلاف مظاہرہ کیا جس کے بعد صورتحال شدت اختیار کر گئی۔

شیئر: