امریکی پابندیوں کے بعد بنگلہ دیش میں ’ماورائے عدالت قتل‘ رُک گئے
امریکی پابندیوں کے بعد بنگلہ دیش میں ’ماورائے عدالت قتل‘ رُک گئے
ہفتہ 12 فروری 2022 16:23
بنگلہ دیش میں ریپڈ ایکشن بٹالین سنہ 2004 میں قائم کی گئی تھی (فائل فوٹو: گیٹی امیجز)
روس سے لے کر شمالی کوریا اور زمبابوے تک سفارتی پابندیوں کے اثرات پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں, لیکن بنگلہ دیش کے سماجی کارکنوں کو ان پر کوئی شبہ نہیں ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ دو ماہ قبل سخت امریکی اقدامات کے بعد بنگلہ دیش میں ماورائے عدالت قتل اچانک رُک گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ادھیکار کے مطابق بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے سنہ 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے تقریباً 2500 بنگلہ دیشی مبینہ طور پر سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جاچکے ہیں۔
ادھیکار کے پاس ان تمام واقعات کا تفصیلی ریکارڈ موجود ہے جس میں سینکڑوں افراد کی جبری گمشدگیاں بھی شامل ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ چار برسوں میں اس طرح کی 1200 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
تاہم ادھیکار کے مطابق جب سے واشنگٹن نے گذشتہ برس 10 دسمبر کو ریپڈ ایکشن بٹالین کی ایلیٹ سکیورٹی فورس بشمول اس کے سات اعلیٰ افسران کے خلاف میگنیٹسکی ایکٹ کے تحت پابندیاں عائد کی ہیں، اس کے بعد کل ہلاکتیں صفر ہوگئی ہیں۔
افروزہ اسلام جن کے بھائی آٹھ سال قبل غائب ہو گئے تھے، کا کہنا ہے کہ ’کاش یہ پابندی بہت پہلے لگ جاتی تو بہت سی زندگیاں بچ جاتیں۔‘
ریپڈ ایکشن بٹالین سنہ 2004 میں مارکسی عسکریت پسندوں اور اسلامی انتہا پسندی سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے بنائی گئی تھی اور اس نے اپنے اہداف کو بے رحمی سے حاصل کیا جبکہ حکام کے مطابق موثر طریقے سے۔
حال ہی میں اس کے اہداف میں بڑے پیمانے میں مبینہ مجرم اور منشیات فروش شامل رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی حکام کا اصرار ہے کہ ہلاکتیں قانونی کارروائیوں میں فائرنگ کے تبادلے میں ہوئی ہیں۔
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ سیاسی مخالفین بھی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں۔
افروزہ اسلام کے بھائی سجاد الاسلام سمن کم سے کم ان 18 کارکنوں میں شامل تھے جو حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ساتھ وابستہ تھے جنہیں دسمبر 2013 میں قومی انتخابات کے دوران ریپڈ ایکشن بٹالین کے افسران نے مبینہ طور پر اٹھا لیا تھا۔
افروزہ اسلام کے مطابق ’میری والدہ ایک سال سے زائد عرصے تک ریپڈ ایکشن بٹالین کے ہیڈکوارٹر جاتی رہیں کیونکہ ہمیں پتا چلا تھا کہ ان کے افسران نے انہیں گرفتار کیا ہے لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئے۔‘
امریکی پابندیوں کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ نور خان لٹن کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں سے ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال میں براہ راست بہتری آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگ اس سے خوش ہیں اور بہت سے لوگوں نے بولنا شروع کردیا ہے۔‘
خیال رہے کہ بعض کیسز میں ریپڈ ایکشن بٹالین کے افسران کو سزائیں بھی ہوئی ہیں۔ مرکزی شہر نارائن گنج میں اپریل 2014 میں کم سے کم 26 افراد بشمول ایک کمانڈر کو سات افراد کے قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی۔
ڈھاکہ اور واشنگٹن کے درمیان عام طور پر اچھے تعلقات ہیں اور دونوں سکیورٹی کے معاملات پر ایک دوسرے سے تعاون بھی کرتے ہیں۔
امریکی پابندیوں میں ریپڈ ایکشن بٹالین کے سابق اور موجودہ حکام کے اثاثے منجمد کرنا اور ویزہ پابندیاں شامل ہیں۔ پابندیوں کی زد میں سابق سربراہ بینظیر احمد بھی آئے ہیں جو اب نیشنل چیف آف پولیس ہیں۔