Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’فیک نیوز چلانے پر پانچ برس سزا، کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا‘

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز )
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جعلی خبر دینے والے کی ضمانت نہیں ہوگی اور پیکا آرڈیننس کے تحت کسی کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا۔
وزیر قانون نے اتوار کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’اب فیک نیوز چلانے پر تین برس کی جگہ پانچ برس سزا ہو گی اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔ میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کا ٹرائل چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ اگر اس مدت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو متعلقہ ہائی کورٹ اس جج سے ٹرائل مکمل نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گا۔ اگر کوئی وجہ نہ ہوئی تو اس جج کو سزا دی جائے گی۔‘ 
’اس قانون کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی فواد چوہدری اور مجھ سے مشاورت ہوئی ہے۔‘
کیا وزیراعظم کی تقاریر بھی اس قانون کے تحت آئیں گی؟ اس سوال کے جواب میں وزیر قانون نے کہا ’کسی کو بھی استثنیٰ نہیں ہے۔ ماضی میں جو بھی غلطیاں جہاں بھی ہوئی ہیں، اب ہمیں درست سمت میں جانا چاہیے۔‘
’یہ قانون آئین کے آرٹیکل 19 کے بالکل بھی اس کے مخالف نہیں ہے۔ آئین میں کہیں بھی فیک نیوز چلانے کی اجازت نہیں ہے۔ باہر کی عدالتیں فیک نیوز پر بھاری جرمانے عائد کر دیتی ہیں۔‘
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’خاتونِ اول اور عمران خان کے بارے میں غلط معلومات پھیلائی گئیں کہ انہوں نے گھر چھوڑ دیا ہے۔ ایسی خبر آپ کے خلاف چلائی جائے تو آپ کیسا محسوس کریں گے۔‘
فروغ نسیم نے مزید کہا کہ ’ہمارا صحیح پاکستانی صحافی فیک نیوز نہیں دیتا۔ یہ وہ لوگ دیتے ہیں جن کا اپنا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے یا اس کے پیچھے بیرون ملک سے کوئی ڈس انفو لیب وغیرہ ہوتی ہے۔‘

مجوزہ قانون جمہوریت کے تقاضوں کے منافی ہے: انسانی حقوق کمیشن

اس سے قبل اتوار ہی کو پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) نے سوشل میڈیا پر حکومت اور ریاست پر تنقید کرنے کو ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کے مجوزہ قانون کو جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان اپنے آفیشل ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا مجوزہ قانون جمہوریت کے منافی ہے۔‘
’(یہ مجوزہ قانون) حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہو گا۔‘
انسانی حقوق کمیشن کے اس قانون سے متعلق تحفظات پر سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ’ایچ آر سی پی نے اگر درست طرح اس مجوزہ قانون کو پڑھا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنی رائے پر نظرثانی کریں گے۔ ایچ آر سی پی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ فیک نیوز چلائیں اور اس پر سزا نہ ہو۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر نیب یا کوئی اور محکمہ کسی کے خلاف کوئی الزام لگاتا ہے، وہ غلط ثابت ہوتا ہے تو بھی متاثرہ شخص عدالت میں جا سکتا ہے۔‘

’سوشل میڈیا پر گندی مہم چلانے والوں کو اب ڈرنا چاہیے: فواد چوہدری

واضح رہے کہ سنیچر کو وفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر گندی مہم چلانے والوں کو اب ڈرنا چاہیے۔‘
نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو میں وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شیئر کرنے والوں کی ناقابل ضمانت گرفتاری ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ قانون میں تبدیلی کر رہے ہیں جس کے بعد ایسے کیسز کا فیصلہ چھ مہینے کے اندر ہوگا۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص چاہتا ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق قوانین بننے چاہیے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا سوشل میڈیا پر صرف شخصیات کے خلاف پوسٹ پر کارروائی ہوگی یا اداروں پر تنقید کرنے پر بھی کارروائی ہوگی تو ان کا کہنا تھا کہ کارروائی شخصیات اور اداروں دونوں کے خلاف پوسٹ کرنے پر ہوگی۔
قبل ازیں فواد چودھری نے کہا تھا کہ پاکستان میں انتخابات کے لیے طے شدہ ضابطہ اخلاق میں تبدیلی اور سوشل میڈیا پر لوگوں کی ’عزت اچھالنے‘ کو قابل سزا جرم قرار دینے کے مجوزہ قوانین وفاقی کابینہ کو منظوری کے لیے بھیجیے گئے ہیں۔
اپنے ٹوئٹر پیغام میں انہوں نے لکھا تھا کہ ’وفاقی کابینہ کو دو اہم قانون منظوری کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پہلے قانون کےتحت پارلیمنٹیرینز کو الیکشن کمپین میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ دوسرے قانون کے تحت سوشل میڈیا پرلوگوں کی عزت اچھالنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے۔‘
فواد چوہدری کے مطابق نئے قوانین میں ’عدالتوں کو پابند کیا گیا ہے کہ فیصلہ چھ ماہ میں کیا جائے۔‘
قبل ازیں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ وفاقی حکومت نے اداروں پر تنقید کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے پریوینشن آف الیکڑانک کرائم ایکٹ 2016 میں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔
رپورٹس کے مطابق ایکٹ میں ترمیم کے بعد عدلیہ، فوج اور دیگر اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے خلاف کارروائی ہو گی۔
رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ مجوزہ ترمیم کے ذریعے اداروں پر تنقید کرنے والوں کو تین سے پانچ سال تک سزا دی جا سکے گی۔
ان کے مطابق پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ میں ترمیم کا آرڈیننس جلد جاری کر دیا جائے گا۔

شیئر: