Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روسی فوج کا کیئف کا گھیراؤ، ’چند روز میں حملہ ہوسکتا ہے‘

روسی فوج یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے اور شہر کے شمال مغرب میں اکٹھی ہو رہی ہے، جبکہ برطانیہ کا کہنا ہے کہ روس چند روز میں کیئف پر حملہ کر سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی سیٹلائٹ کمپنی ’میکسر‘ کی تصاویر میں مسلح روسی دستوں کو کیئف کے شمال مغربی مضافات میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں شدید لڑائی جاری ہے۔
میکسر کے مطابق یہ وہی جگہ ہے جہاں روس نے جنگ شروع ہوتے ہی اپنے پیرا ٹروپرز اتارے تھے۔ اس کے علاوہ وہ دارالحکومت کے شمال میں بھی موجود ہیں اور توپیں فائر کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ’لگتا ہے کہ روس چند روز میں نیا حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس میں کیئف پر حملہ بھی شامل ہے۔‘
دوسری جاانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ماسکو کی درخواست پر یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی مبینہ تیاری کے معاملے پر جمعے کو ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق چھ مارچ کو روس کی وزارت خارجہ نے ٹویٹ میں کہا تھا کہ روسی افواج کو شواہد ملے ہیں کہ یوکرین کی حکومت فوج کی جانب سے چلائے گئے حیاتیاتی پروگرام کے نشانات کو مٹا رہے ہیں جس کی مالی اعانت مبینہ طور پر امریکہ نے فراہم کی تھی۔
امریکہ نے روس کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ الزامات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ماسکو جلد ہی یہ ہتھیار یوکرین میں استعمال کر سکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کریملن جان بوجھ کر یہ جھوٹ پھیلا رہا ہے کہ امریکہ اور یوکرین، یوکرین میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔‘
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے جمعرات کو ایک ویڈیو خطاب میں روس کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’کوئی بھی یوکرین میں کیمیائی یا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی دوسرا ہتھیار تیار نہیں کر رہا ہے۔‘
فیس بک کی اپنی پالیسی میں عارضی طور پر نرمی
دوسری جانب فیس بک نے کہا ہے کہ اس نے یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے اپنی پالیسی میں عارضی طور پر نرمی کی ہے۔

سلامتی کونسل ماسکو کی درخواست پر یوکرین میں حیاتیاتی ہتھیاروں کی مبینہ تیاری کے معاملے پر ہنگامی اجلاس منعقد کر رہی ہے (فوٹو: روئٹرز)

فیس بک نے ’روسی حملہ آوروں کی موت‘ جیسے بیانات اپنے پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کی اجازت تو دی ہے تاہم شہریوں کو دھمکیاں دینے سے روکا گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ماسکو کے اپنے ہمسایہ ملک پر حملے نے نہ صرف مغربی حکومتوں اور کاروباری اداروں کو پابندیاں عائد کرنے کی ترغیب دی بلکہ اس جنگ میں سوشل میڈیا کے کردار پر بھی مباحثوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
فیس بک اور انسٹاگرام کی پیرنٹ کمپنی میٹا کی جانب سے پالیسی فیصلے کو فوری طور پر تنازع کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس نے اپنا دفاع کیا ہے۔
میٹا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں ہم نے سیاسی اظہار رائے کی ان اقسام کی عارضی طور پر اجازت دی ہے جو عموماً ہمارے نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے قوانین کے خلاف ہیں جیسے کہ 'روسی حملہ آوروں کی موت۔'
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم اب بھی روسی شہریوں کے خلاف کسی کو تشدد پر اکسانے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
میٹا کا بیان روئٹرز کی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہ پالیسی آرمینیا، آذربائیجان، ایسٹونیا، جارجیا، ہنگری، لٹویا، لتھوانیا، پولینڈ، رومانیہ، روس، سلوواکیہ اور یوکرین پر لاگو ہوتی ہے۔
ٹیک پلیٹ فارمز کو روس اور یوکرین کے تنازع میں اس وقت مسائل کا سامنا کرنا پڑا جب امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے ٹیلی ویژن انٹرویو اور ٹوئٹر پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے قتل کا مطالبہ کیا تھا۔
گراہم کی تین مارچ کی ٹویٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اس (جنگ) کے ختم ہونے کا واحد راستہ یہ ہے کہ روس میں کوئی شخص اس آدمی کو باہر لے جائے۔‘

فیس بک نے ’روسی حملہ آوروں کی موت‘ جیسے بیانات اپنے پلیٹ فارم پر شیئر کرنے کی اجازت دے دی ہے (فوٹو: روئٹرز)

لنڈسے گراہم کی اس ٹویٹ کو ٹوئٹر نے اپنے پلیٹ فارم سے نہیں ہٹایا تھا جس پر کافی تنقید ہوئی تھی۔
اٹلانٹک کونسل کی ڈیجیٹل فرانزک ریسرچ لیب کے ڈس انفارمیشن ماہر ایمرسن بروکنگ نے بتایا ہے کہ ’یہ پالیسی روسی فوجیوں کے خلاف تشدد کے مطالبات کے حوالے سے ہے۔ یہاں تشدد کی کال، ویسے بھی مزاحمت کی کال ہے کیونکہ یوکرینی ایک پرتشدد حملے کی مزاحمت کرتے ہیں۔‘
تاہم کچھ لوگوں نے اس پالیسی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ لیہائی یونیورسٹی کے پروفیسر جیریمی لٹاؤ نے ٹویٹ میں طنز کرتے ہوئے لکھا کہ ’ہم نفرت انگیز تقریر کی اجازت نہیں دیتے سوائے کسی خاص ملک کے کچھ لوگوں کے خلاف۔‘
فیس بک اور دیگر امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں یوکرین پر حملے کے بعد روس کو ’سزا‘ دینے کے لیے آگے بڑھی ہیں جبکہ روس نے معروف سوشل میڈیا نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ٹوئٹر تک رسائی کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے ہیں۔

شیئر: