Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’یہ بلااشتعال جنگ ہے‘ امریکیوں کی بڑی تعداد روس کے خلاف لڑنے کی خواہاں

امریکی شہریوں کی بڑی تعداد یوکرین جا کر روس کے خلاف لڑنا چاہتی ہے اور اس صورت حال نے امریکہ میں یوکرین کے سفارتخانے کو غیرمتوقع طور پر ایک ریکروٹمنٹ سینٹر کا سا کردار سونپ دیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یوکرینی سفارت کاروں کو ایسی ہزاروں پیش کشیں مل رہی ہیں جن میں لوگ رضاکارانہ طور پر یوکرین جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
یوکرین کے ملٹری اتاشی میجر جنرل بوریس کریمینٹسکی کا کہنا ہے کہ ’ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنگ بلااشتعال اور ناجائز ہے اور وہ آ کر لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘
امریکی رضاکار یوکرین کے لیے لڑنے کے خواہاں افراد کے بہت چھوٹے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں، جو سوشل میڈٰیا کے اس دور میں بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر جذبات کا عکاس ہے۔
جنرل کریمینٹسکی کے مطابق ’یہ کرائے کے فوجی نہیں جو پیسے کمانے آ رہے ہیں، بلکہ یہ خیرسگالی کے جذبے سے سرشار لوگ ہیں جو آزادی کے لیے لڑنے والوں کی مدد کے لیے آنا چاہتے ہیں۔‘
امریکی حکومت امریکیوں کے یوکرین جا کر لڑنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے کیونکہ اس سے قانونی اور سکیورٹی کے مسائل کھڑے ہونے کا اندیشہ ہے۔
کریمینٹسکی کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے سے لے کر اب تک یوکرینی سفارتخانے سے کم از کم چھ ہزار لوگوں نے رضاکارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کے حوالے معلومات لی ہیں اور ان میں سے اکثریت امریکی شہریوں کی ہے۔

یوکرین کے ملٹری اتاشی میجر جنرل بوریس کریمینٹسکی کے مطابق لوگ روسی حملے کو ناجائز سمجھتے ہیں (فوٹو: اے پی)

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ رپورٹ کے مطابق رضاکاروں کی تقریباً آدھی تعداد کو بغیر کسی انٹرویو کے ہی مسترد کر دیا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس مطلوبہ فوجی مہارت نہیں تھی یا پھر وہ مجرمانہ ریکارڈ رکھتے تھے، اسی طرح عمر اور دیگر وجوہات کی بنا پر بھی لوگوں کو رد کیا گیا، جن میں ایک سولہ سالہ لڑکا اور 73 سالہ بزرگ بھی شامل تھا۔
 ان کے بقول کچھ لوگوں کو اس وجہ سے مسترد کیا گیا کیونکہ ایمبیسی مناسب طور پر جانچ نہیں کروا سکتی تاہم جنرل کریمینٹسکی نے یہ نہیں بتایا کہ جانچ پڑتال کا طریقہ کار کیا ہے۔
کریمینٹسکی نے پینٹاگان سے واپس آنے کے فوراً بعد ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کی، وہ اپنے ملک کے مطلوبہ دفاعی سامان اور دیگر معاملات پر مشاورت کے لیے امریکہ گئے تھے۔
انہوں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ امریکی حکومت اور امریکی عوام دونوں کی جانب سے سپورٹ کو سراہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’روسیوں کو صرف آہنی ہاتھوں اور موثر ہتھیاروں سے روکا جا سکتا ہے، اب تک سو امریکی شہری حتمی مرحلے تک پہنچ چکے ہیں، ان میں عراق اور افغانستان میں لڑنے والے سینیئر فوجی بھی شامل ہیں اور کچھ ہیلی کاپٹرز کے پائلٹس بھی ہیں۔‘
ان کو اپنے طور پر پولینڈ پہنچنا ہے جہاں سے وہ اپنے ہتھیاروں  کے بغیر حفاظتی سامان کے ساتھ خصوصی پوائنٹس سے بارڈر کراس کریں گے ان کے لیے ضروری ہو گا کہ وہ بغیر کسی تنخواہ کے اپنی خدمات کا کنٹریکٹ سائن کریں۔
یوکرینی حکومت کا کہنا ہے کہ اب تک مختلف ممالک سے 20 ہزار کے قریب غیرملکی یوکرین کے رضاکار لشکر میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں۔

شیئر: