Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب میں انتظامی افسران کے تبادلوں کی سفارشات، بزدار اچانک متحرک ہوگئے

اراکین اسمبلی کو شکایت رہی ہے کہ بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے (فوٹو ٹوئٹر)
پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد ملک کی ساری سیاست کا محور تبدیل ہو چکا ہے۔
جہاں حکمران جماعت تحریک انصاف اس عدم اعتماد کے خلاف اپنی مورچہ بندی کر رہی ہے وہیں یہ بھی اطلاع ہے کہ پنجاب میں وزیراعلی سردار عثمان بزدار کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد تیار کر لی گئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے ذرائع کے مطابق سو سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کے دستخط بھی لے لیے گئے ہیں، تاہم ابھی تک اس بات کا فیصلہ نہیں ہوا کہ وزیراعلی پنجاب کے خلاف یہ تحریک عدم اعتماد کب پیش کی جائے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سے پہلے ہی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کہیں زیادہ متحرک ہوچکے ہیں۔
خود وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق گذشتہ پانچ روزمیں عثمان بزدار نے 155 اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں ان کے مسائل بھی سنے ہیں اور یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے کسی بھی قسم کے حلقے کے کاموں میں اب کوئی رکاوٹ نہیں آئے گی۔
وزیراعلی آفس کی جانب سے جاری ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کرنے والوں میں علیم خان اور ترین گروپ کے اراکین صوبائی اسمبلی بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف ان ملاقاتوں کا اثر یہ ہوا ہے کہ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں مختلف اضلاع میں سینکڑوں تقرر اور تبادلوں کے لیے اراکین اسمبلی کی سفارشات افسران کو موصول ہوئی ہیں۔
صوبائی اسمبلی کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’گزشتہ دو روز میں 500 سے زائد ایسی سفارشات آئی ہیں جن میں نہ صرف پٹواریوں کے تبادلے بلکہ مختلف تھانوں میں پولیس افسران، ڈاکٹروں، اساتذہ اور دیگر محکموں کے افسران کے تبادلوں کی بھی سفارشات آرہی ہیں اور یہ سفارشات اراکین اسمبلی کی طرف سے سے اپنے اپنے علاقوں میں اپنی پسند کے افسران کی تعیناتی سے متعلق ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ ہاؤس نے چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو یہ احکامات جاری کر رکھے ہیں کہ کسی بھی ایم پی اے کا کوئی بھی کام نہ روکا جائے اور نہ ہی کسی کی فائل روکی جائے۔
سرگودھا سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی غلام علی اصغر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے حال ہی میں ملاقات ہوئی ہے۔
’مجھے ویسے تو کوئی شکوہ شکایت نہیں ہے اپنی پارٹی سے، میں پوری طرح سے مطمئن ہوں، لیکن اس ملاقات میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے خصوصی شفقت کی ہے اور میرے حلقے کے کچھ کام رکے ہوئے تھے اور انہوں نے فوری طور پہ وہ کام کروانے کا حکم جاری کیا ہے۔ اب مجھے اس بات کا یقین ہے کہ بیوروکریسی کسی بھی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔‘

وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا تھا کہ جائز کام کسی کا نہیں رکے گا (فوٹو اے پی پی)

 تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں پارٹی کی طرف سے کسی قسم کا کوئی شکوہ نا پہلے تھا نہ ہی اب ہے۔
 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ سے اس بات کا پرچار کیا ہے کہ سفارش کلچر کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
حال ہی میں وزیراعظم کے مشیر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں اپنا ایک وی لاگ شیئر کیا ہے جس میں انہوں نے اس بات کی شکایت کی کہ ایم این ایز اپنی مرضی کے تبادلوں اور تقرریوں کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔
 تو کیا پاکستان تحریک انصاف نے سٹیٹس کو جاری رکھا ہے؟
اس سوال کے جواب میں ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے بتایا کہ ’یہ ایسی بات نہیں ہے۔ ممبران صوبائی اسمبلی کا حق ہے کہ ان کے جائز کام کیے جائیں، جب وزیر اعظم پاکستان گزشتہ ہفتے لاہور آئے تھے تو ان سے بھی تمام اراکین اسمبلی نے یک زبان ہو کر کہا تھا کہ بیوروکریسی کام نہیں کر رہی تو وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں یہ کہا تھا تھا کہ جائز کام کسی کا نہیں رکے گا۔‘
’انہوں نے وزیراعلی پنجاب کو اس بات کی ہدایت کی تھی کہ کسی بھی رکن اسمبلی کا کوئی بھی جائز کام کسی بھی صورت رکنا نہیں چاہیے۔‘

ترجمان کے مطابق پنجاب میں عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف بھی مدافعت بڑھی ہے (فوٹو ن لیگ)

ترجمان پنجاب حکومت نے مزید بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب کی حالیہ ملاقاتیں اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں جس کے نتیجے میں نہ صرف تحریک انصاف کا پارٹی کے اندر اتحاد سامنے آیا ہے بلکہ اس سے وفاق میں پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کے خلاف بھی مدافعت بڑھی ہے۔
یاد رہے کہ 2018 میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کو ہمیشہ اس بات کی شکایت رہی ہے کہ بیوروکریسی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ نہ صرف اراکین اسمبلی کے کام نہیں کرتی بلکہ وہ وزرا کے کام بھی نہیں ہوتے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ پنجاب بھر کی بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ بھی کی گئی اور چیف سیکرٹری بھی بدلے گئے، تاہم اب اراکین اسمبلی اس بات پر مطمئن ہیں اب ان کے کام ان کی مرضی کے مطابق ہونا شروع ہو گئے ہیں۔

شیئر: