Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمار مسعود کا کالم: ’سب متفق ہیں کہ کال کسی کو نہیں آ رہی‘

عمران خان امریکہ سے لے کر بلاول تک ہرایک کا نام لے چکے ہیں مگر معاملہ ان کے قابو سے باہر نظر آتا ہے (فوٹو: مسلم لیگ ق)
تمام تر تجزیے، تبصرے اور ٹی وی پروگرام دیکھنے کے بعد یہی کہا جا سکتا ہے کہ ابھی تک عدم اعتماد کے حوالے سے کوئی بات اٹل اور حتمی نہیں ہے۔ اگلے 24 گھنٹے بہت اہم ہیں، یہ بات سنتے مہینے گزر گئے ہیں۔ سنا ہے اب بات 28 مارچ تک چلی گئی ہے، وہاں سے آگے مقامات آہ فغاں اور بھی ہیں۔ 
گزشتہ ایک ماہ میں مگر وزیرِاعظم نے بہت قلابازیاں کھائی ہیں۔ حالات سے تو لگتا ہے ان کے پاس کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے، کس کو نشانہ بنانا ہے، کس کو الزام دینا ہے۔ حکومتی بیانات اور خیالات آئے روز بدل رہے ہیں۔ 22 سالہ اس جدوجہد و دشنام طرازی میں حریف بدلتے رہتے ہیں۔ جس سے یہ نتیجہ نکالنا دشوار نہیں ہے کہ آج جن کے خلاف شدت سے بول رہے ہیں، کل سیاسی مصلحتوں کی خاطر ان کو گلے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے یہ مثالیں کافی ہوں گی کہ عمران خان، شیخ رشید کو کیا کچھ نہیں کہتے تھے مگر آج وہ وزارت داخلہ کے عہدے پر متمکن ہیں۔ جس کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے وہ حکومت کے سب سے مضبوط اتحادی بنے رہے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے خوف سے وہی عمران خان ان کے در پر حاضری دے رہے ہیں۔
ایم کیو ایم کے بارے میں بہت سے ارشادات تھے لیکن ان سے بھی خصوصی ملاقاتیں کی جا رہی ہے۔ اسٹیِبلشمنٹ کے بارے میں ان کی ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پرموجود ہیں۔
نواز شریف نے کینسر ہسپتال کے لیے سرکاری زمین دی، افتتاح بھی نواز شریف سے کروایا اور پھر اسی نواز شریف کے خلاف ہو گئے۔ خلاف ہونا تو چلو کوئی بات بھی ہے، اسی کے خلاف کیا کیا نہیں کہتے ۔ جنرل مشرف کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات کرتے رہے اور آج جنرل مشرف کی پالیسیوں کے بارے میں جو بیان دے رہے ہیں وہ انتہائی ناشائستہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک اتحاد میں شامل رہے، ان کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں نعرہ تکبیر بلند کرتے رہے اور آج دیکھیں انہیں کس نام سے پکارتے ہیں۔  
ایک دن فرمایا کہ جنرل باجوہ نے مجھے مولانا فضل الرحمن۔۔۔ مگر اسی لمحے جلسے کے جن شرکا نے مولانا کے بارے میں آوازے کسے اس پر خاموش رہے کہ میں نہیں کہہ رہا، لوگ کہہ رہے ہیں۔
اگلے دن ایک جلسے میں  فرمایا کہ جنرل صاحب کو کوئی کچھ کہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے، کبھی کہتے ہیں اصل مجرم آصف زرداری ہے کبھی نواز شریف ان کا نشانہ ہوتا ہے، کبھی بلاول کی زبان دانی پر اعتراض کرتے ہوئے خود لسانی غلطیاں کرتے ہیں، کبھی ایک سیٹ والے کو منانے پارلیمنٹ لاجز پہنچ جاتے ہیں، کبھی پیپلز پارٹی کی سیاست کی دھجیاں بکھیرتے ہیں اور کبھی خود بھٹو بننے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ دنیا کا سب سے سستا ملک پاکستان ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ دنیا میں مہنگائی کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی ہوئی ہے۔

عمران خان ماضی میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایک اتحاد میں شامل رہے (فائل فوٹو: الامے)

کبھی فرماتے ہیں کہ ان کا کام آلو، پیاز، ٹماٹر کی قیمت کنٹرول کرنا نہیں ہے، کبھی کہتے ہیں میری سیاست کا مقصد اصل میں تبلیغ کرنا ہے، تبلیغ کس چیز کی، اس بارے میں راوی ابھی تک خاموش ہے، کبھی فرماتے ہیں کہ ان کی 22 سالہ جدوجہد کا مقصد کرپشن کو ختم کرنا ہے اور ایسے میں کوئی اس دور پرآشوب کی کرپشن کے بارے مِں کچھ کہہ دے تو خفا ہو جاتے ہیں۔  
خارجہ کے معاملات بھی آج کل ان کی دسترس میں ہیں، کبھی تحریک عدم اعتماد کو امریکہ کی سازش قرار دیتے ہیں، کبھی اس کا الزام یورپیئن یونین کو دیتے ہیں، کبھی یوکرین میں امن کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں، کبھی سی پیک کو ملک کا اثاثہ قرار دیتے ہیں تو اور کبھی ریاستِ مدینہ پر بات کرنے لگتے ہیں۔ کبھی خواتین کے پردے کی فکر میں گھلے جاتے ہیں، کبھی صدارتی نظام کے داعی بن جاتے ہیں اور کبھی چین کا نظام لانے کی کوشش فرماتے ہیں۔  
خان صاحب کی سیاسی ’قلابازیوں‘ کو نقل کرنے کا مقصد صرف تین نتائج پر پہنچنا تھا: ایک تو یہ کہ خان صاحب آج کل گھبرائے ہوئے ہیں، ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس صورت حال کا الزام کس کو دیں، امریکہ سے لے کر بلاول تک ہرایک کا نام لے چکے ہیں مگر معاملہ ان کے قابو سے باہر نظر آتا ہے۔  
دوسرا تنیجہ یہ ہے خان صاحب کسی بھی سیاسی جماعت اور اس کے قائد کے بارے میں جو چاہے کہیں، وقت پڑنے پر وہ ان سے سیاسی مفاد حاصل کرنے سے نہیں چوکتے۔ اس لیے آج کل جن لوگوں کے خلاف بول رہے ہیں، کل کو خان صاحب انہی کا ہاتھ پکڑ کر کسی اور جدوجہد میں شامل ہو سکتے ہیں۔ ان کا ماضی اس کی گواہی دیتا ہے۔ ہو سکتا ہے آئندہ انتخابات میں آصف زرداری ان کے اتحادی ہوں، ق لیگ ان کی دست راست ہو اور ایم کیو ایم ان کی رہنما ہو۔ 
آخری نتیجہ یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اگرچہ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر ایک بات ضرور ہے کہ سب متفق ہیں کہ ’کال‘ کسی کو نہیں آ رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں سے آگے کا سفر کس طرح کا ہوتا ہے۔

شیئر: