Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریکِ عدم اعتماد اور ن لیگ کی سیاست: عمار مسعود کا کالم 

حکومت مخالف اتحاد کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو ختم کرنا ہے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
سارے ملک کی سیاست پر اس وقت تحریک عدم اعتماد کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ اپوزیشن اس بات پر مصر ہے کہ اس کے نمبر پورے ہیں۔ حکومت اس بات پر قائم ہے کہ ہم بچ جائیں گے۔ ہر طرف ملاقاتوں کا شور ہے۔ دوست دشمن شیر و شکر ہو رہے ہیں۔ گلے شکوے دور ہو رہے ہیں۔ لین دین کی گفتگو ہو رہی ہے۔ اختلافات بھلا کر نئے اتحاد منظر عام پر آرہے ہیں۔
کئی سٹیک ہولڈرز اس وقت میدان میں ہیں۔ مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم سب نئے سیاسی منظر نامے میں اپنی جگہ تلاش کر رہے ہیں۔
اس تحریک عدم اعتماد کو سنجیدگی سے دیکھیں تو مسلم لیگ ن کے حوالے سے بہت سے سوالات تشنہ نظر آتے ہیں۔ اس تحریر میں انہی سوالات کو اٹھایا گیا ہے۔ ان کے جوابات کے لیے مستقبل قریب میں ہونے والوں فیصلوں کا انتظار کیجیے۔ 
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد کوئی غیر جمہوری غیر آئینی قدم نہیں ہے۔ یہ آئین پاکستان کا تفویض کردہ حق ہے جسے اپوزیشن کبھی بھی استعمال کرسکتی ہے۔ ماضی میں اس طرح کی کوئی تحریک پاکستان میں کامیاب نہیں ہوئی۔
اس دفعہ صورت حال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت سب سے نازک فیصلہ ن لیگ کے ہاتھ میں ہے۔ ن لیگ اس اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے جو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ لے کر کئی برس سے ڈٹی ہوئی ہے۔
اس بیانیے کی وجہ سے اس جماعت نے بہت ماریں کھائیں، بہت عتاب سہا، لیکن اس کی صفوں میں اتحاد قائم رہا۔ بڑی ثابت قدمی سے اس جماعت نے ریاستی جبر کا مقابلہ کیا۔ اس کا مطمع نظر ہمیشہ سے نئے شفاف انتخابات رہا ہے۔ یہ ابھی تک اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہوئی۔ کوئی ظلم ابھی تک اس کے عزم کو شکست نہیں دے سکا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ن لیگ عمران خان کی حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتی۔ پانچ سال بعد انتخابات کے میدان میں اپنے بیانیے کی جنگ لڑتی، لیکن اب صورت حال مختلف نظر آتی ہے۔

حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے رہنماؤں میں ملاقات ہوئی ہے۔  (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

جماعت کے اندر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن میں مزید سختیاں جھیلنے اور صبر کا یارا نہیں۔ انہیں یہ خوف بھی گھائل کر رہا ہے کہ اگر 2023 کے انتخابات میں بھی وہی ہوا جو گذشتہ انتخابات میں ہوا ہے تو وہ کیا کرلیں گے؟ دس سال کا عتاب کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں جھیل سکتی۔ اسی وجہ سے چند لوگوں نے تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈال دیا ہے۔  
یہ بات سب کو واضح ہونی چاہیے کہ اس طرح کی تحریک عدم اعتماد اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب کچھ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ لین دین کی بات کی جائے۔ کسی بات پر سمجھوتہ کیا جائے اور کسی بات پر انا کا سودا کیا جائے۔ کہیں ںظر جھکائی جائے اور کہیں اصول جھٹلائے جائیں۔ یہ  سمجھنا چاہیے کہ اس وقت حکومت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اتحادی جماعتیں کمزور وکٹ پر ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد کی مصلحتیں ان گروپس کو طاقت بخشیں گی۔
 یہ طرز عمل ن لیگ کی موجودہ سیاست میں نہیں ہے۔ مزاحمت کی بات کرنے والے کبھی مفاہمت کا جھنڈا نہیں اٹھاتے۔ 

ملک میں مہنگائی کی وجہ سے عوام بھی مشکل میں ہے۔ (فائل فوٹو: مسلم لیگ ن)

یہ درست ہے کہ ملکی معیشت کے حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ اس صورت حال میں تبدیلی وقت کی ضرورت ہے، لیکن یہ گمان کرنا ہے کہ ملک و معیشت کا جو حال ہوگیا ہے اس کو کوئی اور حکومت مختصر مدت میں درست کر سکتی ہے، صرف ایک احمقانہ خیال ہے۔
اس ابتر صورت حال سے نکلنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسیاں درکار ہیں اور مختصر مدت کی تبدیلیاں اس صورت حال کے کرب میں اضافہ تو کرسکتی ہیں اسے بہتر نہیں بنا سکتیں۔  
اس دلیل سے مراد صرف اتنی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کے بعد فوری طور پر انتخابات کا اعلان نہیں ہوتا تو تحریک انصاف کی ساری کدورتیں اور کجیاں نئی حکومت کے نام ہوجائیں گی۔ لوگ انہیں الزام دیں گے اور چند ماہ میں نئی حکومت کو کوس رہے ہوں گے۔ نہ پیٹرول کی قیمت کم ہوسکتی ہے، نہ بجلی کے نرخ گر سکتے ہیں نہ خارجہ کے معاملات درست ہوسکتے ہیں اور نہ ہی مختصر مدت میں روزگار کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

’نواز شریف کو یقین دلایا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کوئی جماعت وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار نہیں دے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

المیہ یہ ہوگا کہ عمران خان اور ان کی جماعت چند ماہ میں ہی ’کم بیک‘ کریں گے۔ لوگوں کو نئے چہرے بُرے لگنا شروع ہوجائیں گے اور خان کی یاد ستانے لگے گی۔ ایسا ماضی میں اکثر ہو چکا ہے۔ ہمارے سیاسی مںظر نامے میں یہ واقعہ کوئی انوکھا نہیں ہوگا۔ 
اگر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئے شفاف انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو یہ ن لیگ کے لیے پھر بھی بہتر صورت حال ہوگی۔ اس میں نقصان کا اندیشہ کم ہے۔ نئے انتخابات نیا مینڈیٹ دیں گے اور پھر لانگ ٹرم منصوبوں پر کام کرنے کا وقت ملے گا۔
اتحادیوں کی سماجت بھی نہیں کرنا پڑے گی اور بیانیے کی قوت بھی قائم رہے گی۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی اس بات کا یقین دلایا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی صورت میں کوئی جماعت وزارت عظمیٰ کے لیے اپنا امیدوار پیش نہیں کرے گی۔ اس سے ایک آئینی اور قانونی بحران پیدا ہوجائے گا جس کے نتیجے میں صدر مملکت کے پاس اسمبلی توڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ 

کئی سٹیک ہولڈرز اس وقت میدان میں ہیں، سب نئے سیاسی منظر نامے میں اپنی جگہ تلاش کررہے ہیں (فائل فوٹو: مسلم لیگ ق)

ایک صورت یہ بھی ہے کہ تحریک عدم اعتماد سے پہلے الیکشن کمیشن کا فیصلہ مںظر عام پر آجائے۔ اس صورت میں ن لیگ کا بیانیہ بھی قائم رہے گا، نئے الیکشنز کا عندیہ بھی مل جائے گا اور شفاف الیکشن کے بعد ملکی سیاسی اور معاشی صورت حال میں بہتری کا امکان بھی ہوگا۔ 
اس وقت اپوزیش کے تمام بڑے رہنما تحریک عدم اعتماد کے ڈھول کو خوب پیٹ رہے ہیں لیکن وہ جانتے ہیں کہ اس وقت عمران خان کے جانے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مستقبل کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوگا۔ اسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد ابھی ملاقاتوں تک محدود ہے کوئی حقیقی قرارداد ابھی تک پیش نہیں کی گئی۔ ن لیگ کو بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، ایک ذرا سی لغزش برسوں کی جدوجہد پر پانی پھیر سکتی ہے۔ 

شیئر:

متعلقہ خبریں