لانگ مارچ: کیا مریم نواز اور حمزہ شہباز کا سیاسی سفر ایک ہونے جا رہا؟
لانگ مارچ: کیا مریم نواز اور حمزہ شہباز کا سیاسی سفر ایک ہونے جا رہا؟
جمعہ 18 مارچ 2022 17:53
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کا آغاز 24 تاریخ کو لاہور سے مریم نواز اور حمزہ کی قیادت میں ہوگا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 25 مارچ کو حکومت کے خلاف جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس جلسے سے پہلے ملک بھر سے لانگ مارچ بھی اسلام آباد پہنچیں گے۔ یہ احتجاج وزیر اعظم عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک کا حصہ ہے۔
مسلم لیگ ن نے جمعہ کو مشاورت کے بعد اسلام آباد کی طرف شروع کیے جانے والے لانگ مارچ کا شیڈیول جاری کیا تو اس میں کہا گیا کہ ’مارچ کی 24 تاریخ کو لاہور سے مریم نواز اور حمزہ کی قیادت میں لانگ مارچ کا آغازہوگا‘
پارٹی کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’یہ فیصلہ پارٹی قائد نواز شریف اور صدر شہباز شریف کی پارٹی کی دیگر قیادت سے مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔‘
خیال رہے کہ ن لیگ کی اپنی سیاسی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ مریم نواز اورحمزہ شہباز کسی سیاسی سرگرمی میں اکھٹے نکلیں گے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں مختلف نقطہ نظر پر یقین رکھتے ہیں۔
حمزہ شہباز اپنے والد شہباز شریف کی سیاست کے قائل ہیں تو مریم اپنے والد نواز شریف کی نقطہ نظر کی ہمیشہ حامی رہی ہیں، اور دونوں نظریات میں فرق یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم نے بعض اوقات ٹکراؤ کی سیاست بھی کی ہے جبکہ شہباز شریف نے ہمیشہ ہی مصالحت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
مریم نواز گلی محلے کی سیاست میں اس وقت آئیں جب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ نے عہدے سے ہٹا دیا۔ انہوں نے اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلائی جس کے بعد ان کو مسلم لیگ ن کی عوامی لیڈر بھی کہا جانے لگا۔ انہوں نے ہمیشہ سخت زبان ہی استعمال کی۔
مسلم لیگ ن کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’مریم نواز کے آنے سے مسلم لیگ ن کی سیاست میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ حمزہ شہباز جو کہ اپنے تایا کو اپنا آئیڈیل مانتے تھے اور زبان و بیان بھی وہ ان کا ہی اختیار کرتے تھے، نواز شریف نے جب سخت بیانیہ اپنایا تو وہ تھوڑے پیچھے ہو گئے۔ کیونکہ وہ جگہ ایک جذباتی وابستگی کے تحت مریم نواز نے لے لی۔‘
سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’حمزہ شہباز نے گذشتہ ایک دہائی میں گلی محلے کی سیاست کی ہے اور ہر چیز ان کی انگلیوں پر ہے۔ جوڑ توڑ ہو یا ٹکٹوں کی تقسیم ان کا تمام معاملات میں کلیدی کردار رہا ہے۔ البتہ 2017 کے بعد مسلم لیگ ن کے حالات بدل گئے نواز شریف اور مریم کے جیل جانے کی وجہ سے اندرونی سیاست بھی مختلف ہو گئی۔ اور مریم نواز نے اپنی الگ پہچان اور شناخت بنا لی۔ یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ دونوں ایک ہی سیاسی سرگرمی کو اکھٹا شروع کریں گے اور یقیناً پہلی دفعہ ہی ہو گا اور بظاہر لگتا بھی یہی ہے کہ فریکوئنسی بھی ایک ہی طرح کی ہوگی۔‘
اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کی قیادت کے چاروں بڑوں نے قید کاٹی ہے۔ نواز شریف اور مریم کو 2018 کے انتخابات سے پہلے سزا سنائی گئی تو تحریک انصاف کی حکومت میں شہباز شریف اور حمزہ دو باپ بیٹے جیل میں بڑا عرصہ رہے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ یہ صورت حال نئی نہیں ہے، ’نواز شریف اور شہباز شریف نے بھی ہمیشہ اسی طرح کی سیاست کی ہے لیکن دونوں کی مختلف سیاست کا فائدہ البتہ دونوں کو اکھٹے ہی ہوا ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ان کی اولاد کا یہ پہلا موقع ہو گا کہ وہ اختلافی بیانیے کے بعد اب ایک ہی مقصد کے لیے اکھٹے اور ایک ہی وزن سے لانگ مارچ کو لیڈ کریں گے۔‘
مسلم لیگ ن کی جانب سے جو لانگ مارچ کا شیڈیول جاری کیا گیا ہے اس کے مطابق مارچ کا باقاعدہ آغاز تو 24 مارچ کو لاہور سے ہوگا اور یہ 25 تاریخ کو یہ گوجرانوالہ سے جہلم پہنچے گا۔
شیڈیول کے مطابق یہ لانگ مارچ 26 مارچ کو روالپنڈی میں قیام کرے گا اور 27 مارچ کی صبح اسلام آباد میں داخل ہوگا۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اتوار 27 مارچ کوہی ڈی چوک میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔