Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکم امتناع کی استدعا مسترد، ’وزیراعظم کو الیکشن کمیشن میں پیش ہونا چاہیے تھا‘

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی اتھارٹی ہے، نوٹس پر پیش ہونا چاہیے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران آبزرویشن دی ہے کہ ’درخواست گزار کا کنڈکٹ دیکھتے ہوئے کمیشن کی کارروائی پر حکمِ امتناع جاری نہیں کیا جا سکتا۔‘
جمعے کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے وزیراعظم عمران خان کو دیر میں عوامی جلسے پر بھیجے گئے الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی تو اُن کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن کا کوڈ آف کنڈکٹ قانون سے بالا نہیں ہو سکتا۔
‏وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین الیکشن کمیشن کو قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا، اسی طرح ضابطہ اخلاق قانون کی شقوں پر حاوی نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جہاں آئین کی شق 218 آ گئی تو اس پر قانون کیسے حاوی ہو سکتا ہے؟
‏ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے لیے بنایا گیا الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق پارلیمنٹ کے منظور کردہ قانون کو رد نہیں کر سکتا، الیکشن ایکٹ میں الیکشن کمیشن کا نامزد افسر صرف الیکشن کے قانون اور قواعد کی خلاف ورزی پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ کر سکتا ہے اس میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا ذکر نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ معذرت کے ساتھ حکومت نے بھی آرڈیننس کی فیکٹری لگائی ہوئی ہے، ‏اگر کل کوئی ہائی کورٹ کے رٹ درخواست کی سماعت کے آئینی اختیار کو قانون سازی کے ذریعے محدود کر دے تو کیا ہو گا؟
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم نہیں کیا جا سکتا، آئین کا آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کرانے کے لیے اقدامات کا اختیار دیتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کی دفعہ 233 کے تحت پابندی لگائی۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ الیکشن کمیشن صرف کوڈ آف کنڈکٹ نہیں آئین کے آرٹیکل 218 کے مطابق آرڈر کر رہا ہے، وزیراعظم کمیشن کے سامنے کیوں نہیں جاتے؟
وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو نوٹس کرنے کا اختیار ہی نہیں تو کیوں پیش ہوں؟
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پھر بھی پیش ہونا چاہیے تھا، ایک آئینی اتھارٹی ہے اس نے نوٹس کیا ہے۔ اگر ہر کوئی خود سے تعین کر لے گا کہ نوٹس کرنے والے کا دائرہ اختیار نہیں تو کام کیسے چلے گا؟ وزیراعظم نہ جاتے تو وکیل کو بھیج دیتے۔
وکیل نے استدعا کی کہ الیکشن کمیشن کو اگلی سماعت تک کارروائی سے روکنے کا حکمِ امتناع جاری کیا جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’آپ کا کنڈکٹ دیکھ کر عدالت حکم امتناع نہیں دے سکتی، ہم نوٹس جاری کر رہے ہیں، حکم امتناع نہیں دیا جا سکتا۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن، وزیراعظم، اسد عمر، سیکریٹری کابینہ اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے28 مارچ تک جواب طلب کر لیا۔

شیئر: