صوبے میں حاضر سروس افسران کی سکیورٹی کے لیے 523 اور ریٹائرڈ افسران کے لیے 79 اہلکار ڈیوٹی پر مامور کیے گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا میں اعلٰی شخصیات کی سکیورٹی پر سالانہ 11 کروڑ 17 لاکھ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن ریحانہ اسماعیل کے سوال پر محکمہ داخلہ نے رپورٹ پیش کی ہے۔
وزیراعلٰی کو اتنی سکیورٹی کی ضروت کیوں پیش آتی ہے؟
اپوزیشن نے وزیراعلٰی اور صوبائی حکومت کو سکیورٹی اور پروٹوکول حاصل کرنے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ صوبے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ’پی ٹی آئی والے تو پروٹوکول نہ لینے کے وعدے کرتے تھے تو اب وہ خود کیوں اپنے وعدوں کو پورا نہیں کررہے اور اپنے وعدوں سے کیوں مُکر رہے ہیں؟
اپوزیشن کی تنقید پر سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہمیں حکومت ایسی حالت میں ملی تھی جب صوبے کا پورا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا تھا، دہشت گردی اس وقت بہت زیادہ بڑھ چکی تھی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے سکیورٹی لینا ضروری تھا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعلٰی صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے، 343 پولیس اہلکار ان کے ساتھ بیک وقت موجود نہیں ہوتے بلکہ اگر ضرورت پڑے تو ان کے لیے سکواڈ تیار رہتا ہے۔‘
وزیراعلٰی کی سکیورٹی کے لیے آٹھ دس پولیس اہلکار ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ اگر کسی دورے پر وہ جائیں تو اسی علاقے کے پولیس اہلکار ان کی سکیورٹی کے لیے پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
اس حوالے سے پشاور کے سینیئر صحافی لحاظ علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’343 پولیس اہلکاروں کا بیک وقت چلنا ناممکن ہے کیونکہ اتنے زیادہ پولیس اہلکار کے لیے تو ساٹھ، ستر گاڑیاں بھی درکار ہوتی ہے۔‘
’عموماً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وزیراعلٰی کے ساتھ اتنی سکیورٹی نہیں ہوتی بلکہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ چار پانچ گاڑیاں بطور سکیورٹی چلتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’343 کا یہ پولیس سکواڈ سی ایم ہاؤس میں مستقل تعینات ہوتا ہے جو وہاں کی سیکورٹی کا خیال رکھتا ہے، بعض اہلکار ان کے آبائی گھر پر تعینات ہوتے ہیں جبکہ بعض ان کی سیکورٹی کے لیے تعینات ہوتے ہیں جو ہر وقت ان کے ساتھ رہتے ہیں، کل ملا کر ان کی تعداد 343 ہے۔‘
لحاظ علی نے بتایا کہ ’پہلے ایسے کئی مرتبہ وزیراعلٰی کو پروٹوکول لینے کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے لیکن دراصل وہ تمام گاڑیاں ان کی سکیورٹی کے لیے نہیں تھیں بلکہ ان کے ساتھ دیگر اعلٰی افسران بھی دورے میں شامل ہوتے ہیں جن کی اپنی اپنی سکیورٹی ہوتی ہے جو کل ملا کر 15 سے 20 گاڑیاں بنتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وزیراعلی کے ساتھ عام طور پر تیس، چالیس پولیس اہلکار سکیورٹی پر معمور ہوتے ہیں لیکن وہ جہاں پر بھی جاتے ہیں وہاں پہلے سے ہی سکیورٹی انتظامات پورے کیے جاتے ہیں۔‘
’پہلے وہاں کی سکیورٹی کلیئر کی جاتی ہے، یہ ضلعی سطح پر ہوتا ہے جو اس سکواڈ کے علاوہ ہوتا ہے اور ایسا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان نمائندگان کی حفاظت کرنا لازم ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’حکومت چاہے جہاں کی بھی ہو لیکن اگر کوئی منتخب نمائندہ ہو تو انہیں سکیورٹی کے مسائل درپیش ہوتے ہیں اور انہیں سکیورٹی لینا پڑتی ہے۔‘
اپوزیشن جماعت اے این پی کی رکن اسمبلی شگفتہ ملک نے سوال اٹھایا کہ ’چلیں مان لیتے ہیں کہ وزیراعلٰی کو سکیورٹی دینا لازم ہے لیکن جو ریٹائرڈ افسران ہیں انہیں سکیورٹی دینے کی کیا ضرورت ہے؟‘
’اگر کوئی وزیر سکیورٹی لینے کی درخواست کرتا ہے تو انہیں بمشکل ایک سکیورٹی اہلکار دیا جاتا ہے تو پھر ان ریٹائرڈ افسران کو اتنی مراعات دینے کی ضرورت کیا ہے جو حکومتی خزانے پر بوجھ بن رہے ہیں۔‘
کسی حکومتی نمائندے نے اپوزیشن کے اس سوال کا جواب نہیں دیا۔
صحافی لحاظ علی نے بتایا کہ ’اصل وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی والے گذشتہ دور حکومت میں اس حوالے سے دوسری پارٹیوں کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے تھے، وہ ہمیشہ پروٹوکول نہ لینے اور سادگی اختیار کرنے کے وعدے کرتے تھے لیکن اب وہی ان کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ آج کل پی ٹی آئی کی حکومت وہی سب کچھ کر رہی ہے جس کے وہ خلاف تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وی آئی پیز کو تو سکیورٹی درکار ہوتی ہے لیکن عام عوام بھی آج کل سکیورٹی لینا سٹیٹس سمبل سمجھتے ہیں، اثرورسوخ رکھنے والے افراد اپنے ساتھ ایک یا دو سکیورٹی اہلکار رکھتے ہیں جس پر وہ فخر محسوس کرتے ہے اور ان پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں و دیگر مراعات بھی حکومت کی طرف سے دی جاتی ہیں۔‘
لحاظ علی نے بتایا کہ ’پورے صوبے کے 23 ہزار نومنتخب کونسلرز بھی سکیورٹی اہلکار رکھنے کے خواہش مند ہوں گے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا آئینی اور قانونی حق ہے، اگر انہیں بھی سکیورٹی دی جاتی ہے تو اس کا بوجھ بھی حکومت پر پڑے گا۔‘