جنگ کے دوران روس اور یوکرین اپنی کرنسیوں کی قدر کیسے برقرار رکھ رہے ہیں؟
جنگ کے دوران روس اور یوکرین اپنی کرنسیوں کی قدر کیسے برقرار رکھ رہے ہیں؟
اتوار 20 مارچ 2022 7:16
یوکرین میں مارشل لا کے تحت کرنسی کی ہر قسم کی تجارت کو معطل کر کے ایک نرخ مقرر کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یوکرین پر روس کے حملے نے اس کی معیشت کو بہت بڑا دھچکا لگایا اور اس دوران اس کی کرنسی کی قدر تیزی سے گری۔
خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق روس اور یوکرین جنگ کے دوران اپنی کرنسیوں کی قدر برقرار رکھنے کے لیے کئی طرح کے اقدامات کر رہے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب بھی ہیں۔
یوکرین پر حملے سے قبل روس میں ایک امریکی ڈالر کا شرح مبادلہ 80 روبل (مقامی کرنسی) تھا جو 24 فروری کو روسی افواج کے یوکرین میں داخل ہونے کے بعد 150 روبل تک گر گیا۔
روس کی کرنسی کی قدر میں اس غیرمعمولی تنزلی نے معیشت کو بڑا دھچکا لگایا جس کے بعد مختلف طرح کے اقدامات کے نتیجے میں اب ایک ڈالر کے 105 روبل ملتے ہیں۔
معاشی تجزیہ کاروں کی مطابق روس نے اپنی کرنسی کی قدر کو گرنے سے بچانے اور بحال رکھنے کے لیے یہ تاثر پھیلایا کہ وہ یوکرین سے مذاکرات کر رہا ہے اور تنازعے کا حل نکل آئے گا جس کے بعد روبل واپس 105 ڈالر پر آیا۔
سرمائے پر سخت گرفت کے تحت برآمد کنندگان سے تمام غیرملکی کرنسی کو مرکزی بینک میں رکھوانے اور عام صارفین کو ان کے بینکوں میں رکھی رقم تک محدود رسائی، دو ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے روبل کو مزید گرنے سے بچایا۔
اس کے علاوہ روس کے مرکزی بینک نے عالمی پابندیوں اور مغربی کی جانب سے سخت معاشی ناکہ بندی کو دیکھتے ہوئے روبل کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے مارکیٹ میں اس کو سپورٹ کیا۔
تجزیہ کار الیگزینڈر کڈرن نے بتایا کہ ’گزشتہ دس برس میں روس کے مرکزی بینک نے مارکیٹ میں براہ راست چند بار ہی مداخلت کی اور اب یہ کرنسی کے شرح مبادلہ کو اپنے حق میں رکھنے میں فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔‘
دوسری جانب یوکرین میں مارشل لا کا نفاذ کیا گیا اور مرکزی بینک نے کرنسی کی ہر قسم کی تجارت کو معطل کر کے ایک نرخ مقرر کیا جس کے تحت ایک ڈالر کو ہرینیا (مقامی کرنسی) کے 29 تک رکھا گیا ہے۔