پاکستان میں جمہوریت پسند طبقات اور سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پارلیمان کی بالاستی کو ہمشیہ سے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اس بات پر زور دیتی آئی ہیں کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے سے تلاش کرنا چاہیے۔
لیکن تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جب بھی ملک میں کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران سر اٹھاتا ہے تو پارلیمان کے اندر موجود جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں یا عدالتوں کا رخ کرتی ہیں جس کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
تحریکِ عدم اعتماد کے شور میں ’مائنس ون‘ فارمولے کی گونجNode ID: 653976
-
تحریک عدم اعتماد، سپریم کورٹ کا تمام پارلیمانی جماعتوں کو نوٹسNode ID: 654081
سنہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ عمران خان نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا مطالبہ نہ مانا گیا اور پھر انھوں نے پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن کا دھرنا دیا۔
معاملہ عدالت تک پہنچا اور جوڈیشل کمیشن قائم نے تحقیقات کے بعد قرار دیا کہ 2013 کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔
’پانامہ پیپرز‘ آئے تو نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنی صفائی پیش کی جسے قبول نہ کیا گیا اور معاملہ عدالت پہنچا جس کا نتیجہ ان کی نااہلی نکلا۔ اس وقت بھی یہ تجزیہ کیا جاتا رہا کہ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں حل کر لیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔
اس سے پہلے بھی جب سیاسی قوتوں نے معاملات پر پارلیمان سے باہر سیاست کی تو نہ صرف پارلیمنٹ کمزور ہوئی بلکہ نظام کو بھی نقصان پہنچا۔
گزشتہ دنوں پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو آئین کے تحت اس حوالے جنگ بھی پارلیمنٹ کے اندر ہی لڑی جانی تھی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ پارلیمان کے بجائے سڑکوں اور عدالتوں پر لایا جا رہا ہے۔
حکومتی جماعت نے اپنی پاور شو کرنے کے لیے جلسے کا اعلان کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے ان سے پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک پر پہنچنے کا اعلان کر دیا۔
بیک وقت کئی جماعتوں کے ہزاروں کارکنان کی اسلام آباد میں موجودگی اور گرم سیاسی ماحول کسی بھی تصادم کا باعث بن سکتا ہے لیکن سیاسی قیادت پارلیمان کے بجائے سڑکوں پر فیصلہ کرنے پر بضد ہے۔
