Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمانی لڑائی عدالتوں اور سڑکوں پر، کیا سیاست ناکام ہو گئی؟

حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے اگلے ہفتے اسلام آباد میں احتجاجی جلسے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں جمہوریت پسند طبقات اور سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ پارلیمان کی بالاستی کو ہمشیہ سے چیلنجز درپیش رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اس بات پر زور دیتی آئی ہیں کہ مسائل کا حل پارلیمنٹ میں بحث و مباحثے سے تلاش کرنا چاہیے۔  
لیکن تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو جب بھی ملک میں کوئی بڑا سیاسی مسئلہ یا بحران سر اٹھاتا ہے تو پارلیمان کے اندر موجود جماعتیں پارلیمنٹ کے بجائے سڑکوں یا عدالتوں کا رخ کرتی ہیں جس کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔  
سنہ 2013 کے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگایا۔ عمران خان نے اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا مطالبہ نہ مانا گیا اور پھر انھوں نے پارلیمنٹ کے سامنے 126 دن کا دھرنا دیا۔  
معاملہ عدالت تک پہنچا اور جوڈیشل کمیشن قائم نے تحقیقات کے بعد قرار دیا کہ 2013 کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔  
’پانامہ پیپرز‘ آئے تو نواز شریف نے پارلیمنٹ میں اپنی صفائی پیش کی جسے قبول نہ کیا گیا اور معاملہ عدالت پہنچا جس کا نتیجہ ان کی نااہلی نکلا۔ اس وقت بھی یہ تجزیہ کیا جاتا رہا کہ اگر معاملہ پارلیمنٹ میں حل کر لیا جاتا تو حالات مختلف ہوتے۔  
اس سے پہلے بھی جب سیاسی قوتوں نے معاملات پر پارلیمان سے باہر سیاست کی تو نہ صرف پارلیمنٹ کمزور ہوئی بلکہ نظام کو بھی نقصان پہنچا۔  
گزشتہ دنوں پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی تو آئین کے تحت اس حوالے جنگ بھی پارلیمنٹ کے اندر ہی لڑی جانی تھی لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ معاملہ پارلیمان کے بجائے سڑکوں اور عدالتوں پر لایا جا رہا ہے۔  
حکومتی جماعت نے اپنی پاور شو کرنے کے لیے جلسے کا اعلان کیا تو اپوزیشن جماعتوں نے ان سے پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک پر پہنچنے کا اعلان کر دیا۔  
بیک وقت کئی جماعتوں کے ہزاروں کارکنان کی اسلام آباد میں موجودگی اور گرم سیاسی ماحول کسی بھی تصادم کا باعث بن سکتا ہے لیکن سیاسی قیادت پارلیمان کے بجائے سڑکوں پر فیصلہ کرنے پر بضد ہے۔  

عمران خان نے اپنے پارٹی کارکنوں کو 27 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دوسری جانب حکمراں جماعت نے جہاں ایک طرف ارکان پارلیمنٹ بالخصوص منحرف ارکان کو یہ چیلنج دے رکھا ہے کہ انہیں 10 لاکھ لوگوں سے گزر کر ووٹ دینے جانا ہوگا وہیں اس کا ایوان میں مقابلہ کرنے کے بجائے عدالت میں ریفرنس دائر کیا جا رہا ہے جسے تاخیری حربہ قرار دیا جا رہا ہے۔  
اس صورت حال پر تجزیہ کرتے ہوئے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’پارلیمانی نظام میں فیصلے حکومت کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کا کام قانون بنانا اور پالیسیوں کی نگرانی کرنا ہے۔ جب بعض معاملات پر حکومت یا سیاسی جماعتیں عدالتوں میں جاتی ہیں یا سڑکوں پر آ جاتی ہیں تو یہ سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اتنی بلوغت نہیں ہے کہ وہ بات چیت کریں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ اس لیے عدالتوں میں جانا پڑتا ہے۔‘ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’کسی بڑے تصادم سے بچنے کے لیے عدالت جانا ایک حد تک درست بھی ہے کہ جب کسی آئینی مسئلے پر سیاسی جماعتیں کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتیں تو وہ آئینی نکتے کی تشریح کے لیے عدالت کا ہی رخ کرتی ہیں۔‘ 
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’موجودہ تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر عدالت یا سڑکوں پر جانا سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ جب سیاسی جماعتیں قانون اور آئین کے مطابق طریقہ کار نہیں اپنائیں گی تو ناکام ہی ہوں گی۔ 1989 میں جب بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد جب پیش ہوئی تھی تو بے نظیر نہ عدالت گئیں اور نہ ہی انھوں نے کوئی جلسہ جلوس کیا۔ اسی طرح اس وقت کی اپوزیشن نے بھی کوئی جلسہ نہیں کیا تھا۔ اب بھی سمجھ داری اسی میں ہے کہ کسی رکاوٹ کے بغیر تحریک عدم اعتماد کا پروسیس مکمل کیا جائے۔ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں کم از کم نظام کی ناکامی نہیں ہوگی۔ سیاسی جماعتوں نے اگر عدم اعتماد کے فیصلے کو تسلیم کیا تو کم از کم سیاست اور سیاسی جماعتیں ناکامی سے بچ جائیں گی۔‘  
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’معاشرے میں مکالمے کا رجحان جب جب بھی زوال پذیر ہوا اس کی جگہ تصادم اور تشدد نے لی۔ سیاست میں مکالمے کی نفی سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہی کہی جائے گی۔ اسی پارلیمان میں موجود درجن سے زائد جماعتوں نے متفقہ اٹھارھویں ترمیم پاس کی۔ اسی ملک کی دو روائتی سیاسی حریفوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے سے ہونے والے فیصلوں، آئین سازی اور دیگر معاملات کو سامنے رکھا جائے تو وہ ہمیشہ کسی بڑے سانحے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ 58 دو بی تب ختم ہوئی جب نواز شریف اور بے نظیر دونوں اس کا شکار ہوچکے۔ اٹھارھویں ترمیم سے پہلے مشرف نے مین سٹریم جماعتوں کا وجود خطرے میں ڈال دیا تھا۔ دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن پر اتفاق سانحہ اے پی ایس کے بعد ہوا۔‘  
ڈاکٹر آمنہ کے مطابق ’اس وقت بھی سیاسی جماعتوں بالخصوص حکومت کو ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے جو کسی ’سانحے‘ کا باعث بنے اپوزیشن کو انگیج کرنا چاہیے۔‘  
 

شیئر: