لارجر بنچ میں پانامہ کیس کے بنچ میں شامل جسٹس اعجاز الحسن کے علاوہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
واضح رہے کہ پیر کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کی درخواست اور حکومت کی جانب سے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ وہ آرٹیکل کا بغور مطالعہ کر کے آئیں جبکہ حکومتی اتحادی اگر مناسب سمجھیں تو اپنی گزارشات دے سکتے ہیں۔
صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے کیا رائے مانگی گئی ہے؟
حکومت کی جانب سے دائر کیے جانے والے صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے چار سوالات پر رائے مانگی گئی ہے۔ ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ووٹ دے تو کیا اسے رکن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی؟ اسے ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا؟
سپریم کورٹ سے یہ رائے مانگی گئی ہے کہ کیا ایسے رکن جو پارٹی پالیسی سے انحراف کریں اور پالیسی کے خلاف ووٹ دیں تو کیا ان کے ووٹ کو شمار کیا جائے گا؟
سپریم کورٹ سے پوچھا گیا ہے کہ کیا جو وفاداری تبدیل کرتے ہوئے رکن پارٹی پالیسی کے خلاف جائے اور ثابت ہو کہ اس نے آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی کی ہے تو کیا اسے رکن کو تاحیات نا اہل قرار دیا جائے گا؟
چوتھے سوال میں عدالت سے رائے مانگی گئی ہے ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنے کے لیے موجودہ آئینی ڈھانچے میں کون سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں جس سے فلور کراسنگ کو روکا جاسکے۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ صدارتی ریفرنس کی سماعت 24 مارچ کو کرے گا جبکہ چیف جسٹس گزشتہ سماعت پر کہہ چکے ہیں کہ ‘کوشش کریں گے کہ صدارتی ریفرنس پر جلد فیصلہ دیں تاہم اس سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی۔‘