صدارتی ریفرنس سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی: سپریم کورٹ
صدارتی ریفرنس سے پارلیمنٹ کی کارروائی تاخیر کا شکار نہیں ہوگی: سپریم کورٹ
پیر 21 مارچ 2022 15:46
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
چیف جسٹس نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہیے۔‘ (فوٹو اے پی پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت کی جانب سے آرٹیکل 63 کی تشریح کے حوالے سے صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی سماعت کے دوران کہا کہ ’کوشش کریں گے کہ صدارتی ریفرنس پر جلد اپنا فیصلہ دیں، تاہم پارلیمنٹ کی کارروائی صدارتی ریفرنس کی وجہ سے تاخیر کا شکار نہیں ہوگی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر رہے ہیں۔ ’سیاسی جماعتیں آرٹیکل کا بغور مطالعہ کر کے آئیں، حکومتی اتحادی جماعتوں کو نوٹسز نہیں دے رہے، اگر وہ اپنی نمائندگی چاہتے ہیں تو اپنی گزارشات دے دیں۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کی جانب سے دائر ددرخواست اور حکومتی ریفرنس پر سماعت کی۔
چیف جسٹس نے سیاسی جماعتوں کے شاہراہ دستور پر جلسوں کے اعلان کے حوالے سے کہا کہ ’کوشش کریں کہ ڈی چوک میں جلسہ نہ ہو، جلسوں میں تہذیب کے اندر رہتے ہوئے تقاریر کی جائیں۔‘
ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے سے روکنے سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کی درخواست پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے، آرٹیکل 95 (2) کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے۔ سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنی درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں، عدالت ابھی تک قومی اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی۔ عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، اگر بار زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی آبزرویشن رکاوٹ بن سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بار کا اس عمل سے کیا تعلق ہے، بار عوامی حقوق کی بات کرے۔
سپریم کورٹ نے دونوں فریقین کو ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کرکے جلسوں کی تاریخ اور جگہ کا تعین کرنے کی ہدایت دی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالت کو یقنی دہانی کروائی کہ ’ارکان پارلیمنٹ کو کسی ہجوم کے ذریعے ووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جائے گا اور حکومت پر امن طریقے سے احتجاج کرے گی۔‘
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’ضلعی انتظامیہ کے ساتھ یہ طے کر لیں کہ پارلیمنٹ سے کتنی دوری پر جلسے ہوں گے، دونوں فریقین کے جلسوں کا وقت اور جگہ الگ ہو تاکہ کسی قسم کا تصادم پیدا نہ ہو۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوی ایشن کے وکیل منظور عثمان نے سماعت کے آغاز میں پارلیمنٹ کا اجلاس تاخیر سے متعلق بلانے پر دلائل دیے۔ انہوں نے کہا کہ ’پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اپوزیشن نے 8 مارچ کو دی تھی قانون کے مطابق 14 روز کے اندر سپیکر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا پابند ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ 22 مارچ کو اس کی مدت ختم ہورہی ہے، لیکن سپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس 25 مارچ کو طلب کیا ہے۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہمارے پاس آرٹیکل 184 تھری کے تحت اجلاس نہ بلانے کی وجوہات دیکھنے کا اختیار نہیں ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کہاں ہوئی، سپریم کورٹ آئین کی ضامن ہے، یہ پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے اسے سپیکر قومی اسمبلی کے سامنے اٹھایا جائے۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سینیئر قانون دان فاروق ایچ نائیک نے روسٹرم پر آکر کہا کہ ’یہ آئین کی ہی خلاف ورزی ہے جس پر آرٹیکل 6 لگتا ہے، آرٹیکل 6 کیا کہتا ہے یہ دیکھ لیں۔‘
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ’جس پر پہلے آرٹیکل 6 لگایا ہے پہلے اس پر تو عملدرآمد کروا لیں۔‘
اٹارنی جنرل کے اس جملے پر چیف جسٹس آف پاکستان بھی مسکرائے اور عدالتی کارروائی آگے بڑھا دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتوں کو آئین اور قانون میں موجود طریقہ کار پر عمل کرنا چاہیے۔
’سیاسی جماعتوں کو اپنی طاقت کا مظاہرہ پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہیے اور اپنے ورکرز کو بھی یہ بتانا چاہیے کہ آئین اور قانون میں موجود طریقہ کار پر عمل ہوگا۔ سندھ ہاؤس میں جو ہوا وہ افسوس ناک تھا، اس سے ارکان پارلیمنٹ کے ووٹ کا حق متاثر ہوا ہے۔‘
سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی ارکان پارلیمنٹ کو ہجوم کے ذریعے ووٹ دینے سے نہ روکنے کی یقین دہانی پر سپریم کورٹ بار کی درخواست نمٹا دی۔
سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو جلسوں سے متعلق ضلعی انتظامیہ کے ساتھ تاریخ اور جگہ کے تعین کی ہدایت کردی۔
آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت 24 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔