Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ووٹنگ مشینوں سے چھیڑ چھاڑ

جیسے جیسے ان مشینوں کا استعمال بڑھا ویسے ویسے انکی معتبریت پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے

معصوم مرادآبادی

انتخابات میں بیلٹ پیپروں سے ہونے والی ووٹنگ کے بعد کئی کئی روز تک چلنے والی رائے شماری سے پریشان لوگوں کو اس وقت بڑی راحت ملی تھی جب ملک میں ای وی ایم یعنی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال شروع ہوا تھا۔ان مشینوں سے جہاں ووٹ ڈالنے والوں کو آسانی ہوتی ہے تو وہیں دوسری جانب لاکھوں ووٹوں کی گنتی چند گھنٹو ںمیں پوری ہوجاتی ہے لیکن جیسے جیسے ان مشینوں کا استعمال بڑھا ہے ویسے ویسے ان کی معتبریت پر بھی سوالیہ نشان قائم ہونے لگے ہیں۔حالیہ عرصے میں سوشل میڈیا پر ای وی ایم مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی خبریں اتنے تواتر کے ساتھ آرہی ہیں کہ اب ان مشینوں کی افادیت مشتبہ ہوتی چلی جارہی ہے۔حالیہ اسمبلی انتخابات کے بعد ای وی ایم مشینوں کی معتبریت پر سب سے زیادہ سوال کھڑے کئے جارہے ہیں اور بیشتر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہمیںشفاف انتخابات کیلئے دوبارہ بیلٹ پیپروں کی طرف رجوع ہونا پڑے گا۔

گزشتہ روز مدھیہ پردیش کے بھنڈضلع میں ای وی ایم مشینوں کی جانچ کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے ان خدشات اور اندیشوں کو تقویت پہنچائی ہے جو اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کوحاصل ہونے والی غیر معمولی کامیابی کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں۔ بھنڈ ضلع کے ایک اسمبلی حلقہ کے ضمنی انتخاب کیلئے ووٹنگ مشین کی جانچ کے دوران کسی بھی بٹن کو دبانے پر بی جے پی کو ہی ووٹ پڑنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔میڈیا میں اس معاملے کی خبریں اور ٹی وی چینلوں پر اس گڑبڑ کے نظاروں نے ان تمام لوگوں کے کان کھڑے کر دئیے ہیں جو حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی سے حیران وپریشان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹاکر اپنا احتجاج درج کرایا ہے ۔کمیشن نے اس معاملے کی سنگینی کا اندازہ لگاتے ہوئے مقامی انتظامیہ سے فوری رپورٹ طلب کی ہے اور اس معاملے میںذمہ دار ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سمیت 19افسران کو ان ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے۔یہ معاملہ در اصل وی وی پی ٹی کی کارکردگی جانچنے کے دوران روشنی میں آیا ہے۔وی وی پی ٹی ایک ایسی مشین ہے جس سے نکلنے والی پرچی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ووٹر نے کس پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔

ووٹر صرف 7سیکنڈاس پرچی کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ ایک ڈبے میں گر جاتی ہے اور ووٹر اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔جانچ کے دوران بھنڈ میں جتنی بار بھی اس مشین کا بٹن دبایا گیا اتنی بار اس میں سے بی جے پی کی ہی پرچی باہر نکلی۔اس واقعہ نے وہاں موجود تمام لوگوں کے کان کھڑے کردئیے۔ اس واقعہ کے منظر عام پر آنے کے بعد الیکشن کمیشن پر اخلاقی دباؤضرور بڑھ گیا ہے لیکن وہ اب بھی ای وی ایم مشینوں کو پوری طرح خامیوں سے پاک قرار دے رہا ہے اور اس سلسلے میں تمام اعتراضات مسترد کر دئیے گئے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے اس دعوے کو اپوزیشن جماعتیں قبول کرنے کو تیارنہیں۔اس سلسلے میں دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ باقاعدہ الیکشن کمیشن جاکر اپنی شکایت درج کرائی ہے۔انہوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ اگر ای وی ایم کا کوئی بھی بٹن دبانے پر کمل کی ہی پرچی نکلتی رہی تو ایک دن سبھی جگہ بی جے پی ہی جیتے گی۔انہوں نے سوال کیا کہ ووٹ عوام دے رہے ہیں یا مشینیں؟انہوں نے الزام لگایا کہ مشینوں کا سافٹ ویئر بدلا گیا ہے اور مشینوں سے چھیڑ چھاڑ ممکن نہ ہونے سے متعلق الیکشن کمیشن کا دعویٰ غلط ہے۔مشینوں سے چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے۔اروند کیجریوال کے علاوہ کانگریس جنرل سیکریٹری دگوجے سنگھ نے بھی ایک وفد کے ساتھ الیکشن کمیشن میں اپنی شکایت درج کرائی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جب ساری دنیا میں چناؤبیلٹ پیپر سے ہو رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کیوں ہے۔انہوں نے کہا کہ ای وی ایم کا چپ غیر ملکوں سے منگایاجاتا ہے جو بھروسے کے قابل نہیں ۔انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ چناؤ جہاں بھی ہوں بیلٹ پیپر سے ہی ہوں۔خواہ چناؤ میں کچھ تاخیر ہوجائے ۔ حالیہ اسمبلی انتخابات کے نتائج منظر عام پر آنے کے بعد ای وی ایم مشینوں پر سب سے پہلا سوال بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے اٹھایا تھا۔اس کے بعد سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی اس پر مہر لگائی تھی۔

یوپی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی غیر معمولی کامیابی پر کئی حلقوں نے حیرت کا اظہار کیا تھا اور اس معاملے میں ای وی ایم مشینوں پر شکوک وشبہات ظاہر کئے گئے تھے۔کیونکہ نوٹ بندی اور دیگر عوام مخالف اقدامات کے باوجود بی جے پی کو حاصل ہونے والی غیر معمولی کامیابی نے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔یوپی میں ووٹنگ مشینوں کے حوالے سے لگاتارایسی خبریں آرہی تھیں جنہوں نے ان شبہات کو مزید بڑھا دیا تھالیکن بی جے پی کامیابی کے نشے میں ان تمام الزامات کو مسترد کرتی چلی آرہی تھی۔یہ وہی بی جے پی ہے جس نے ماضی میں ای وی ایم مشینوںپر لاتعداد سوالات کھڑے کئے تھے۔بی جے پی کے موجودہ جنرل سیکریٹری اور سابق انتخابی تجزیہ نگار نرسمہا راؤ نے ای وی ایم کے غلط استعمال پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی تھی جس کا پیش لفظ بی جے پی کے سینیئر لیڈر لال کرشن اڈوانی نے لکھا تھا۔اس کتاب کے اجراء کے دوران بی جے پی ممبرپارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے ای وی ایم مشینوں کیخلاف دھواں دھارتقریر کی تھی لیکن اب جبکہ اپوزیشن جماعتیں ای وی ایم مشینوں کے غلط استعمال پر مسلسل سوال قائم کر رہی ہیں تو بی جے پی لیڈروں کو سانپ سونگھ گیا ہے اور وہ ان مشینوں کیخلاف کچھ بھی سننے کو تیارنہیں۔

شیئر: