تحریک انصاف میں سب سے بڑا دھڑا جہانگیر خان ترین کا ہے۔ (فائل فوٹو: پاکستان تحریک انصاف)
علیم خان گروپ نے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے لیے ق لیگ کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔
بدھ کو علیم خان گروپ کے ترجمان میاں خالد محمود نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گروپ نے اپنی ایک میٹنگ کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں وزارت اعلی کے لیے پرویز الہی کو کسی صورت ووٹ نہیں دیا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس حوالے سے اپوزیشن کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ حمایت کسی لین دین کے تناظر میں بالکل بھی نہیں ہے۔‘
میاں خالد محمود خود بھی سردار عثمان بزدار کی کابینہ میں وزیر ہیں۔ ان کے پاس ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی وزارت ہے اور وہ علیم خان کے دست راست سمجھے جاتے ہیں۔
انہوں نے دعوی کیا ہے کہ ’ان کے گروپ کے پاس 20 ممبران صوبائی اسمبلی ہیں جنہوں نے اس فیصلے کی توثیق کی ہے اور وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘
واضح رہے کہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی نامزد کرنے کے اعلان نے سیاسی ہلچل کو سیاسی طوفان میں بدل دیا تھا۔
ایک طرف تو تحریک انصاف کے اپنے کارکنان اس اچانک تبدیلی پر حیران تھے تو دوسری طرف اپوزیشن بھی مخمصے کا شکار ہوگئی تھی۔
سردار عثمان بزدار نے وزارت اعلٰی کے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ ’وہ خوشی سے اس عہدے سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر ان کا مکمل اعتماد ہے۔‘
پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔
سنہ 2018 میں سردار عثمان بزدار 194 ووٹوں سے وزیراعلٰی پنجاب منتخب ہوئے تھے۔ ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں سے ان کو سپورٹ کیا تھا جس کے بدلے میں پارٹی کے صدر پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں، ق لیگ کے پاس 10 اور ’راہ حق پارٹی‘ کے پاس ایک رکن ہے۔
اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین، پیپلز پارٹی کے پاس سات کا ہندسہ ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پرویزالٰہی کا وزیراعلٰی پنجاب بننا بالکل بھی مشکل نہیں لیکن اب حالات 2018 سے مختلف ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کو درپیش چیلنجز
وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز ہونے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو جس بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر بننے والے سیاسی دھڑے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا دھڑا جہانگیر خان ترین کا ہے جو گذشتہ سال اپریل میں بظاہر حکومت سے اپنی راہیں جدا کرچکا ہے۔ جب جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ چلایا تھا تو انہوں نے 20 سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ عدالت میں پیش ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔
جہانگیر ترین کا ساتھ دینے والے 20 سے زائد صوبائی اسمبلی کے ممبران نے ابھی تک اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پرویز الٰہی کو اپنی راہ میں حائل رکاوٹ دور کرنے کے لیے تحریک انصاف کے سب سے بڑے دھڑے کو رام کرنا پڑے گا۔
اسی طرح علیم خان بھی پرویز الٰہی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں کیونکہ جب علیم خان نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ شاید وہ خود وزیراعلٰی پنجاب کے امیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے۔
ق لیگ کی جانب سے ایسے بیانات جاری ہوئے جن میں علیم خان کو ’کسی بھی صورت وزیراعلٰی پنجاب تسلیم نہ کرنے‘ کا اعلان کیا گیا تھا۔
گروپ کے ایک اہم رکن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’علیم خان اور چودھریوں کے درمیان خاصی بڑی خلیج حائل ہے۔ علیم خان سمجھتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی نے انہیں غیر ضروری طور پر کئی مرتبہ تنقید کا نشانہ بنایا۔‘
علیم خان اگرچہ یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا گروپ بنانے کے بعد 40 سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی ہے لیکن ابھی اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ اصل میں کتنے اراکین اسمبلی ان کے ساتھ ہیں۔