Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی میں حکومت کو شکست، اجلاس 3 اپریل تک ملتوی

پاکستان کی قومی اسمبلی میں جمعرات کو اپوزیشن کے ارکان نے اپنی اکثریت دکھاتے ہوئے حکومتی تحریک کو کثرت رائے سے نامنظور کر دیا ہے۔
حکومت کو شکست ہونے اور وقفہ سوالات میں بار بار تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے مطالبے سے تنگ آ کر ڈپٹی سپیکر نے اجلاس اتوار کی صبح تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو اپوزیشن اراکین نے اپنی نشستوں پر کچھ دیر کے لیے دھرنا دیا۔
جمعرات کو قومی اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت سے سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا جس کی صدارت ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کر رہے تھے۔
روایت کے برعکس وقفہ سوالات سے قبل ہی ڈپٹی سپیکر نے وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو تحریک پیش کرنے کا کہہ دیا۔
ان کی جانب سے قومی اسمبلی کے ایوان کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے لیے استعمال کرنے کی تحریک پیش کی گئی۔
ڈپٹی سپیکر نے تحریک کی منظوری کے لیے ووٹنگ کرائی تو حکومت کے مقابلے میں بلند آواز سے اپوزیشن کے اراکین نے ’نہ‘ کہہ دیا۔ ڈپٹی سپیکر نے دوبارہ ووٹنگ کرائی تو اپوزیشن نے مزید بلند آواز اور زیادہ تعداد  کے ساتھ تحریک نامنظور کر دی۔ 
اس کے بعد ایوان میں وقفہ سوالات کا آغاز کیا گیا۔ 
ڈپٹی سپیکر نے سب سے پہلے مسلم لیگ ن کی رکن طاہرہ اورنگزیب کو سوال کرنے کا کہا تو انھوں نے کہا کہ ’میں اپنا سوال واپس لیتی ہوں تاہم آپ جلدی سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرا دیں۔‘

اپوزیشن اراکین نے خوب نعرے بازی کی اور کچھ دیر بعد انہوں نے دھرنا ختم کرکے اسمبلی ہال خالی کر دیا (فوٹو: اردو نیوز)

اس کے بعد اپوزیشن کے جس بھی رکن کو سوال کرنے کا کہا گیا تو تمام اراکین نے صرف یہ سوال کیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کب کرائے جائے گی؟ 
اس دوران حکومتی بینچوں سے اپوزیشن اراکین کے خلاف نعرے بازی شروع ہوگئی۔ جواب میں بلوچستان عوامی پارٹی کے خالد مگسی اپنی نشست سے اٹھ کر حکومتی بینچوں کے سامنے آئے اور کہا کہ ’انہی باتوں کی وجہ سے ہم آپ کو چھوڑ کر گئے ہیں۔‘
اس دوران اراکین کی جانب سے ووٹنگ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن ارکان کے سوالات کے جواب میں کہا کہ ’کوئی بھی رکن وقفہ سوالات میں دلچسپی نہیں لے رہا اس لیے اجلاس اتوار کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے۔‘
 اس کے بعد حکومتی ارکان ایوان سے چلے گئے جبکہ اپوزیشن اراکین نے احتجاج کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے اپنی نشستوں پر دھرنا دیا۔ اپوزیشن نے ایوان میں گنتی بھی کروائی۔
اس وقت ایوان میں اپوزیشن کے 172 ارکان ایوان میں موجود تھے۔ بلاول بھٹو زرداری نے شہباز شریف کو اکثریت حاصل کرنے پر مبارکباد دی۔ 
اپوزیشن اراکین نے اس دوران خوب نعرے بازی کی اور کچھ دیر بعد انہوں نے دھرنا ختم کرکے اسمبلی ہال خالی کر دیا۔ 

اپوزیشن رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آج سپیکر نے پارلیمان کے اندر پارلیمانی روایات کی دھجیاں اڑائیں۔‘
جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ’وقفہ سوالات میں تمام اراکین نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحری پر ووٹنگ کرا لیں، ڈپٹی سپیکر نے جب دیکھا کہ اراکین ووٹنگ چاہتے ہیں تو وہ بھاگ گئے۔‘
شہباز شریف کے بقول پوری قوم نے دیکھا کہ تمام 172 اراکین ایوان میں موجود تھے۔ ’سیکرٹری اسمبلی نے کہا کہ ووٹنگ ہونا تھی ہم نے بریف کر دیا تھا۔ اب سپیکر کا اختیار ہے کہ اتوار تک جس دن چاہے ووٹنگ کرا لیں۔‘

شہباز شریف نے کہا کہ پوری قوم نے دیکھا کہ تمام 172 اراکین ایوان میں موجود تھے۔ (سکرین گریب)

انہوں نے وزیراعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا سلیکٹیڈ وزیراعظم کے پاس اخلاقی آئینی جواز رہ گیا ہے؟ یہ شخص یوٹرن لیتا ہے اس لیے خط بھی جھوٹ اور فراڈ ہے۔‘
مسلم لیگ ن کے رہنما نے مزید کہا کہ ’ایک فرنٹ خاتون نے کرپشن کی ہے، میں عمران خان کی اہلیہ کی بات نہیں کر رہا لیکن فرنٹ خاتون نے کرپشن کے اربوں روپے باہر بھجوائے۔‘
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پارلیمان میں 175 اراکین پیش کر دیے، عمران خان کے لیے این آر او لینے کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے۔ ’ایک عزت دار طریقہ ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں۔‘

شیئر: