اسلام آباد میں کسی سیاسی تبدیلی یا انتشار کا اثر پنجاب کے حکومتی ایوانوں پر بھی ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے طوفان کے اثرات سے تخت لاہور بھی لرزاں ہے۔
وفاق میں عدم اعتماد کا منہ موڑنے کے لیے تحریک انصاف نے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی جگہ چوہدری پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ دینے کا عندیہ دیا ہے۔ اگرچہ مرکز میں حکومتی اتحادیوں کی طرف سے حمایت کے بعد اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے پراعتماد ہے۔ ساتھ ہی وہ پنجاب میں پرویز الہی کا راستہ روکنے کے لیے پرامید بھی ہے۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر پرویز الہی صوبائی اسمبلی میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کریں گے۔ اس کا انحصار موجودہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے استعفے، ناراض گروپوں کے رویے اور صوبے میں وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن کے امیدوار کی نامزدگی پر ہے۔
مزید پڑھیں
-
علیم خان گروپ کا پرویز الہی کی حمایت سے انکارNode ID: 657236
عمران خان کی جماعت اور حکومت کے لیے ناموافق سیاسی حالات دیکھ کر چوہدری پرویز الہی اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی کرسی کے درمیان ماضی میں قربت اور دوری کے دلچسپ سیاسی اتفاقات اور حادثات کی تاریخ نگاہوں کے سامنے پھرنے لگتی ہے۔
ماضی میں تین مرتبہ ایسا ہوا کہ چوہدری پرویز الہی کی وزیراعلیٰ بننے کی دیرینہ خواہش سیاسی حادثات اور ناموافق حالات کے باعث تشنہ رہ گئی۔
سنہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد گجرات کے چوہدری ظہور الہی کے خانوادے کی نظریں پنجاب کے سب سے بڑے عہدے پر لگی ہوئی تھیں۔ تقسیم کے بعد ظہور الہی نے گجرات میں دھڑے اور برادری کی سیاست میں کامیابی سے پاؤں جمانے کے بعد ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنائی۔
فوجی حکمران جنرل ضیا الحق سے حد درجہ رفاقت اور حمایت کی وجہ سے انہیں جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اسی باعث ان کے بیٹے چودھری شجاعت حسین اپنے کزن اور بہنوئی چودھری پرویز الہی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے طلب گار تھے۔

پاکستان کے سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اپنی سیاسی آپ بیتی ’سچ تو یہ ہے‘ میں لکھتے ہیں کہ وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں سب سے زیادہ ارکان اسمبلی ہماری میٹنگ میں آتے تھے۔ جن میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھی۔ ان سب کا مشورہ یہ تھا کہ پرویز الہی کا نام بطور وزیراعلیٰ آنا چاہیے۔
اس وقت کے گورنر پنجاب غلام جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم کی آشیر باد سے لاہور کے کشمیری خاندان کے نوجوان صنعت کار نواز شریف کے سر صوبے کی وزارت اعلیٰ کا تاج سج گیا۔
ان کے مخالفین نے شہری اور دیہاتی ممبران اسمبلی کی تقسیم کا سوال کھڑا کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ غیر سیاسی پس منظر کے شہری بابو نواز شریف کے خلاف سب سے پہلے گجرات کے چودھری پرویز الہی نے علم بغاوت بلند کیا۔
چوہدری شجاعت حسین کے مطابق نواز شریف نے انہیں دھوکا دیا۔ ان کے گروپ کے لوگوں کو مختلف مراعات کی لالچ سے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ چوہدری برادران نواز شریف کی شکایت کرنے اور انہیں ہٹانے کی اجازت لینے ضیا الحق کے پاس گئے۔ بقول چودھری شجاعت ضیاء الحق کے الفاظ تھے۔
’آپ بسم اللہ کریں اور نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئیں۔ اللہ آپ کو مبارک کرے، چیف منسٹر شپ۔‘
جولائی 1986 میں نواز شریف کی وزارت اعلیٰ کے خلاف دبی دبی سرگوشیاں سنائی دینے لگیں۔ وزیراعلیٰ کو ان کے سیاسی مخالفین کے عزائم کی اطلاع اس دور کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سپیشل برانچ پولیس سردار محمد چوہدری نے دی۔
انہوں نے صوبائی سیکریٹری داخلہ حاجی حبیب کے ہمراہ نواز شریف کو بتایا کہ ان کے وزیر بلدیات پرویز الہی انہیں اقتدار سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس سردار محمد چوہدری اپنی آپ بیتی The Ultimate Crimeمیں لکھتے ہیں کہ پنجاب کے بااثر سیاسی رہنما جن میں اکثریت جاگیردارانہ پس منظر رکھتے تھے، نے نواز شریف کو مجبورا وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کیا تھا۔ جب پرویز الہی نے انہیں اکثریت سے محروم کرنے کی تحریک شروع کی تو وہ لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔

چوہدری پرویز الہی بارسوخ سیاستدانوں کی آشیرباد کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے کس قدر پرجوش اور پرامید تھے، اس کا ذکر سردار محمد چودھری نے کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پرویز الہی نے اسمبلی میں ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ ’تم، حاجی حبیب اور ڈاکٹر صفدر محمود تینوں یہ سمجھتے ہو کہ نواز شریف بچ جائے گا۔ سارے لوگ میرے ساتھ ہیں۔ بریگیڈیئر قیوم میری مدد کے لیے ایبٹ آباد سے آنے والے ہیں ۔‘
مگر 23 اکتوبر 1986 کے دن نواز شریف نے اسمبلی سے پرجوش خطاب کے بعد جب اعتماد کے ووٹ کا تقاضا کیا تو صرف پانچ غیر حاضر ارکان ان کی مخالفت میں تھے۔ مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے 260 ارکان نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔
ضیا الحق کی منشا اور دیہی علاقوں کے اکثریتی ممبران کی حمایت کے باوجود چوہدری برادران نواز شریف کو اقتدار سے محروم کرنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ نواز شریف نے جنرل حمید گل کی مدد سے ضیا الحق کو یہ باور کروا دیا تھا کہ اگر چوہدری پرویز الہی وزیراعلیٰ بن گئے تو پنجاب میں چودھری بہت مضبوط ہو جائیں گے، یوں وہ جونیجو حکومت کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔ اس کے بعد ضیا الحق لاہور آئے اور مشہور جملہ کہا ’نواز شریف کا کلہ مضبوط ہے۔‘
آج کے حالات میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر پرویز الہی پنجاب کی حکومت کے حصول میں ناکام رہ گئے تو شاید انہیں سپیکر شپ سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔
یہ دلچسپ اتفاق ہے کہ اسی طرح کی صورتحال انہیں نواز شریف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ناکام ہونے کے بعد بھی درپیش تھی۔ انہیں اپنے قریبی ساتھیوں سمیت وزارتیں چھوڑنا پڑ گئی تھیں۔

ان کی کابینہ میں واپسی کا احوال چودھری شجاعت حسین اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق جب ہم نے ضیا الحق سے حمایت واپس لینے کی شکایت کی تو ان کا جواب تھا کہ آپ نواز شریف سے صلح کر لیں۔۔ میں نواز شریف کو کہہ دیتا ہوں وہ آپ کے وزرا کو دوبارہ کابینہ میں لے لیں گے۔
دوسری بار پرویز الہی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی امید اپریل 1993 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی اور بحالی کے بحران کے دوران پیدا ہوئی۔
نواز شریف کی وزارت عظمی کے خاتمے کے بعد پنجاب میں دو تہائی اکثریت سے منتخب ہونے والے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کے خلاف اس وقت کے سپیکر اسمبلی میاں منظور وٹو نے بغاوت کر دی تھی۔ وہ 157 ممبران کی حمایت سے عدم اعتماد کے ذریعے صوبے کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
مگر محض ایک ماہ کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف حکومت کی بحالی نے پنجاب میں ایک نیا سیاسی طوفان کھڑا کر دیا۔
نواز شریف نے پرویز الہی کو پنجاب میں سیاسی کردار ادا کرنے اور منحرف مسلم لیگی ممبران اسمبلی کی واپسی میں کامیابی کے عوض وزارت اعلیٰ کا یقین دلایا۔
بقول چودھری شجاعت پرویز الہی نے وزارت اعلیٰ کے لیے اسمبلی میں اکثریت ثابت کر دی۔ بغاوت کر کے وزیراعلیٰ بننے والے منظور وٹو نے اکثریت کھو جانے کے ڈر سے اسمبلی توڑنے کی سفارش کر دی۔
نواز شریف حکومت کی بحالی کے بعد مسلم لیگ کے باغی پنچھی منظور وٹو سے پرویز الہی کی منڈیر پہ آنا شروع ہوگئے۔ 29 مئی 1993 کو وزیراعلیٰ منظور وٹو نے گورنر چوہدری الطاف کو اسمبلی توڑنے کی سفارش کی۔
اسی روز پرویز الہی نے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد سپیکر اسمبلی کے دفتر میں جمع کروا دی۔ جس کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوگیا اور معاملہ لاہور ہائیکورٹ جا پہنچا۔

عدالت میں اسمبلی کی تحلیل کی دیگر آئینی وجوہات کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث ہوتی رہی کہ پرویز الہی نے تحریک عدم اعتماد پہلے جمع کروائی یا منظور وٹو نے گورنر کو اسمبلی توڑنے کی سفارش پہلے کی۔ اپنے موقف کی تائید میں دونوں فریقوں نے عدالت کے سامنے اپنے اپنے مخصوص وقت کا دعویٰ بھی پیش کیا۔
ہائی کورٹ میں وقت کے تنازع کا فیصلہ کرنے کے لیے مختلف لوگوں کی شہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔ کچھ حلقوں کی جانب سے مسلم لیگ کے حامیوں پر سیکریٹری پنجاب اسمبلی حبیب اللہ گورایا کے اغوا کا الزام بھی لگایا گیا تاکہ وہ عدالت کے سامنے شہادت نہ دے سکیں۔
لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی بحالی نے پرویز الہی کے لیے بظاہر سازگار حالات پیدا کر دیے۔ مگر شومئی قسمت کے اس دن وہ اپنے ارکان اسمبلی کی اکثریت کے ساتھ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں مقیم تھے۔ اس طرح منظور وٹو کو ایک مرتبہ پھر اسمبلی توڑنے سے روکنے کے لیے ایک اور تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں جمع نہ ہو سکی۔
گورنر پنجاب کی طرف سے اسمبلی کی دوبارہ تحلیل اور پھر قومی اسمبلی توڑنے کے صدارتی حکم نامے سے چوہدری پرویز الہی کے لیے دوسری بار بھی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا خواب تشنہ تکمیل رہا۔
اس بار گجرات کے چوہدری برادران کی مسلم لیگ ق پنجاب میں 10 ممبران اسمبلی کی قلیل تعداد کے ساتھ وزارت اعلیٰ کی متوقع امیدوار ہے۔
پنجاب کی سیاست میں اس طرح کی انہونی پہلے بھی ہو چکی ہے۔ 1993 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ جونیجو گروپ کے منظور وٹو 18 ایم پی ایز کی مدد سے پیپلز پارٹی سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔
منظور وٹو کے دور میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف تھے۔ چودھری شجاعت حسین کے مطابق وہ کمر کے درد کے علاج کا بہانہ کر کے لندن چلے گئے۔ یہ پرویز الہی تھے جنہوں نے مشکل حالات میں اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھایا۔
