Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صدر اور وزیراعظم کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا‘

پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے صدارتی حکم اور سپیکر کی رولنگ کے خلاف فوری حکم امتناع دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ صدر اور وزیراعظم سمیت تمام اقدامات عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہوں گے۔   
چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل بینچ نے ملکی سیاسی صورت حال پر لیے گئے از خود نوٹس کیس کی ابتدائی سماعت کی۔  
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے بار کونسل، اٹارنی جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آج دن کو ججز کا اجلاس ہوا جس میں ہم نے جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کا جائزہ لیا اور ہم نے فیصلہ کیا کہ اس کا نوٹس لینا ہے۔‘  
’اس سے پہلے ہم ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔‘  
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم نے پبلک آرڈر کو برقرار رکھتے ہوئے آئین کی پاسداری یقینی بنانی ہے۔ اٹارنی جنرل سمیت سب کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔‘ 
سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ نے ریاستی عہدیداروں کو کسی بھی ماورائے آئین اقدام سے روک دیا۔ 
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے مناسب سمجھا ہے کہ معاملے کا نوٹس لیں، کیس کو صرف پیر کے لیے ملتوی کر رہے ہیں، کوئی بھی ریاستی ادارہ غیر آئینی اقدام نہ کرے۔ 
دوران سماعت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جائزہ لیں گے کہ ڈپٹی سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ کی کیا حیثیت ہوگی۔ عدم اعتماد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں اور ریاستی ادارے امن وامان برقرار رکھیں۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی صورت حال کا نوٹس لینے کا فیصلہ ججز کے اجلاس میں ہوا (فوٹو: قومی اسمبلی)

سپریم کورٹ نے سیکریٹری داخلہ کو امن وامان برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں آگاہ کرنے کی ہدایت کی اور ریماکس دیے کہ کوئی بھی موجودہ صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ ’سماعت پیر تک ملتوی کر رہے ہیں لیکن کل ہمیں سپیکر کی رولنگ کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔ خاص طور پر کسی بھی عدالتی کارروائی کے بغیر آرٹیکل پانچ کا اطلاق کیسے کیا؟‘ 
عدالت نے پیپلز پارٹی کی جانب سے صدراتی حکم اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ معطل کرنے کی استدعا پر سپریم کورٹ نے متفرق درخواستوں پر تمام فریقین کو نوٹسز جاری کردیے اور درخواستوں کا نمبر لگانے کی ہدایت کردی۔ 
سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی آدمی اُٹھے اور اپنی مرضی سے رولنگ جاری کر دے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ صرف قانون پر ہی بات ہوگی اور قانون پر ہی فیصلہ دیا جائے گا۔ وزیراعظم یا صدر کی جانب سے لیے گئے اقدامات سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ 

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے ہم ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا چاہتے ہیں‘ (فائل فوٹو: قومی اسمبلی ٹوئٹر)

ن لیگ کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے حوالے سے کہا کہ ڈپٹی سپیکر نے کوئی وجہ بتائے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کردیا جبکہ آج وہاں وزیر اعلٰی کا انتخاب ہونا تھا۔ بعد میں امن و امان کا بہانہ بنایا گیا جبکہ ایوان میں ایسا ماحول نہیں تھا۔  
عدالت نے پنجاب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو امن و امان کو یقینی بنانے کی ہدایت کی اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بھی نوٹس جاری کردیا۔ 
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا لیا اب وہ ایوان خالی کردیں۔ سنا ہے کہ اب وہاں اے سی بھی بند کر دیے گئے ہیں۔‘  
سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ انھیں ملک اور آئین کی خاطر وہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔‘ 
عدالت عظمیٰ نے صدر، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو بھی نوٹسز جاری کردیے۔ 

عدالت عظمیٰ نے صدر، وزیراعظم، اٹارنی جنرل، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو بھی نوٹسز جاری کردیے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)

اس سے قبل سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان نے ملک کی موجودہ صورت حال کا نوٹس لیا ہے۔ 
علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے اقدامات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ 
ان اقدامات کے خلاف پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی، عدالتی عملہ چھٹی والے دن سپریم کورٹ پہنچا اور اپوزیشن کی درخواستیں وصول کیں۔ 
اپوزیشن نے پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی کہ ڈپٹی سپیکر کا اقدام آئین کے آرٹیکل 66،17،95 کی خلاف ورزی ہے، لہٰذا ان کا اقدام کالعدم قرار دیا جائے اور دوبارہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے اور نتیجہ دینے کا حکم دیا جائے۔ 
درخواست میں صدر، وزیراعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر سمیت دیگر کو فریق بناتے ہوئے کہا کہ جن ذمہ داروں نے آئین کی خلاف ورزی کی اور آئین کو توڑا ان سب کا قانون کے مطابق ٹرائل کا حکم دیا جائے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ارکان پارلیمنٹ نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرا لیا اب وہ ایوان خالی کردیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لینے کی خبر کے بعد بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، وکلا اور صحافیوں کی بڑی تعداد سپریم کورٹ پہنچی۔  
کمرہ عدالت بند ہونے کے باعث سینکڑوں افراد کمرہ عدالت کے باہر دو گھنٹے کھڑے رہے۔  
اس دوران سیاسی رہنماؤں اور وکلا کے درمیان موجودہ صورت حال پر بحث مباحثہ بھی ہوتا رہا۔  
کمرہ عدالت کے باہر کچھ وکلا نے تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر عمر ایوب کو گھیر لیا اور ان سے سوال جواب شروع کردیے۔ عمر ایوب ان کے سوالات سن کر غصے میں آگئے تاہم وہاں موجود باقی وکلا نے معاملے کو ٹھنڈا کیا۔  
اس سے قبل سپریم کورٹ کے احاطے میں مسلم لیگ ن رہنما محمد زبیر اور شہباز گِل کے درمیان مصافحہ ہوا۔ شہباز گِل نے معنی خیز انداز میں سوال پوچھا کہ اب آپ کا کیا حال ہے؟ اس پر محمد زبیر نے جواب دیا کہ ابھی تک ٹھیک ہے۔  

کمرہ عدالت کے باہر کچھ وکلا نے سابق وفاقی وزیر عمر ایوب کو گھیر لیا اور ان سے سوال جواب شروع کردیے (فوٹو: عمر ایوب ٹوئٹر)

سماعت سے قبل جب اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچے تو صحافیوں نے ان سے ان کے استعفیٰ کے بارے میں استفسار کیا لیکن انھوں نے جواب نہیں دیا۔
وہ اپنے دفتر پہنچے تو تحریک انصاف کے رہنما بابر اعوان اور فواد چودھری بھی ان کے پاس پہنچ گئے اور کافی دیر تک مشاورت کرتے رہے۔  
پیر کے روز اس کیس کی سماعت سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ کرے گا۔

شیئر: