سپریم کورٹ کا ہفتے کی صبح تک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم
سپریم کورٹ کا ہفتے کی صبح تک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کا حکم
جمعرات 7 اپریل 2022 14:43
رپورٹنگ: وسیم عباسی، بشیر چوہدری، زبیر علی خان
سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلافِ آئین قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی بحال کر دی ہے اور حکم دیا ہے کہ وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔
از خود نوٹس پر پانچ روز کی سماعت کے بعد جمعرات کو متفقہ مختصر حکم میں عدالتِ عظمٰی نے کہا کہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنا آئین کے منافی تھا۔
عدالتی حکم کے مطابق تحریکِ عدم اعتماد نہ کرانے کی رولنگ کے بعد وزیرِاعظم پاکستان کا صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس کرنا بھی آئین/رولز کے خلاف تھا۔
اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے کل یوم تشکر منانے کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ کل احتجاج نہیں یوم تشکر ہوگا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے عدلیہ نے اپنی آزادی اور وقار کو چار چاند لگائے ہیں۔‘
یہ دوسرا موقع ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے قومی اسمبلی کی تحلیل کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے تمام اقدامات رول بیک کرنے کا حکم دیا ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے عدلیہ نے اپنی آزادی اور وقار کو چار چاند لگائے ہیں۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اس سے قبل 1993 میں نواز شریف حکومت کی برطرفی کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور اسے پھر سے اسی طرح کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی جیسے صدر اسحاق خان کے اسمبلی توڑنے سے پہلے تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ’اب تک کے حکومتی اقدامات غیر آئینی تھے۔ سپیکر کا فرض ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلائے۔‘
عدالت نے وفاقی کابینہ کو بھی دوبارہ بحال کر دیا ہے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ’سپیکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ قومی اسمبلی کا جاری اجلاس طلب کریں، اور ایسا فوری طور پر کریں جس میں سنیچر کے صبح ساڑھے دس بجے سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے جو 9 اپریل کی تاریخ ہے۔ اور اس دن اسی ایجنڈے پر کارروائی کرے جو تین اپریل کو جاری کیا گیا تھا۔‘
’سپیکر آئین کے آرٹیکل 54 کی شق تین کے تحت اسمبلی کے اجلاس کو اس وقت تک ملتوی نہیں کر سکتے جب تک عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی۔ اجلاس اسی وقت ملتوی کیا جا سکتا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہو جائے، یا عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو جائے اور آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت نئے وزیراعظم کا انتخاب ہو جائے اور وہ رولز 32 کے تحت اپنا عہدہ سنبھال لیں۔‘
قبل ازیں جمعرات کو ایک طویل سماعت کے اختتام پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بھی عدالت کے روسٹرم پر بلایا گیا۔
اس سے قبل ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم ہے اور اس کو ایوان کی کارروائی کے تحت تحفظ حاصل نہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے ایک موقع پر عدالت میں سپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنے سے معذرت کی تاہم اپنے دلائل میں دعویٰ کیا کہ ’تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کا مسئلہ نئے انتخابات ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’ایک بات تو طے ہے کہ رولنگ غلط ہے۔ اس کے بعد کیا ہونا ہے اس کو دیکھیں گے۔‘
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ’سپیکر ایوان کا نگران ہے۔ سپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کے لیے نہیں بیٹھتا۔ سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے اور باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہو سکتی تھی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ’عدالت نے قومی مفاد کو بھی نے دیکھنا ہے۔ ‘
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ’عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے۔‘
’کل کو کوئی سپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا۔ عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں۔ فیصلے کے نتائج میں نہیں جائیں گے۔‘